اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی تقریر کے دوران ایوان میں ہنگامہ آرائی ہوئی اور شور شرابا ہوا ٗ اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کر گئی جبکہ وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے اپوزیشن کوشدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ انہیں جسٹس نہیں جسٹس قیوم چاہیے، انہیں احتساب نہیں احتساب الرحمن چاہیے، انہیں جنرل ضیا چاہیے۔
جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مراد سعید نے کہا کہ انہیں جسٹس نہیں جسٹس قیوم چاہیے، انہیں احتساب نہیں احتساب الرحمن چاہیے، انہیں جنرل ضیا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کی خواہش پر پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ دی۔مراد سعید نے کہا کہ ان کی مرضی کی قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ بھی ان کی دی ہیں، لیکن سمجھ نہیں آتی یہ چاہتے کیا ہیں،انہیں جسٹس نہیں، جسٹس قیوم چاہیے، انہیں احتساب نہیں احتساب الرحمان چاہیے۔انہوں نے کہا کہ میں نے اگر کوئی غیر پارلیمانی لفظ کہا ہے تو مجھے ایوان سے باہر نکال دیں۔ وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ 600 ووٹ سے اپوزیشن لیڈر ہار گئے ہیں‘ وقت بدل گیا اور جمہوریت آگئی ہے۔ اب ایسا نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جنرل نے جس سیاسی جماعت کے لیڈر کی پرورش کی ہے انہیں غلط عادات پڑ گئی ہیں اور ہر دفعہ یہی سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی بھی طرح جتوا دیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ نیب ہمارے ماتحت نہیں‘ آزاد ادارہ ہے جن کو عبدالقیوم کو فون کرکے فیصلہ کرانے کی عادت ہو انہیں کیسے یقین دلایا جائے کہ ادارے خودمختار اور آزاد ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب قوانین حوالے سے یہاں بات کی گئی ہے جب ہم اپوزیشن میں تھے تو ایک بل لائے کہ نیب کی پلی بارگین ختم ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ریڑھی اور فالودے والوں کے اکاؤنٹس سے پیسے نکلے ہیں تو حکومت کا کیا قصور ہے۔ ملک اور عوام کو بے دردی سے لوٹنے والے دوبارہ سے یہ سفر شروع کرنا چاہتے ہیں
لیکن پی ٹی آئی حکومت انہیں ایسا نہیں کرنے دے گی جس نے پیسہ لوٹا ہے اسے حساب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں سننے کی بھی سکت نہیں ہے۔ دراصل ان کے پاس دلیلیں ختم ہو چکی ہیں۔وفاقی زیر مراد سعید کی بات پر اپوزیشن ارکان نے ایوان میں شور شرابا اور احتجاج کیا جس کے دوران اپوزیشن ارکان نشستوں پر کھڑے ہو گئے مراد سعید کے جملوں پر متحدہ اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کر گئی جس پر اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔