عمان/مقبوضہ بیت المقدس(انٹرنیشنل ڈیسک)فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کا ایک متنازع بیان ان دنوں ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث ہے۔ اس بیان میں وہ ایک اسرائیلی صحافیہ کو کہہ رہے ہیں کہ اْنہیں اردن کے ساتھ کنفیڈریشن کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے۔صدر عباس کے اس بیان کے بعد فلسطینی اتھارٹی کا سرکاری رد عمل معلوم کرنے کے لیے عرب ٹی وی نے فلسطینی ایوان صدر سے رابطہ کیا۔
ایوان صدر کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے کہا کہ کنفیڈریشن میکینزم 1984ء سے فلسطینی قیادت کے ایجنڈے پر ہے۔ اس وقت سے آج تک ہمارا یہ اصولی موقف رہا ہے کہ دو ریاستی حل اردن سے خصوصی تعلقات کا دروازہ بن سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کنفیڈریشن کیقیام کا فیصلہ فرد واحد یا کوئی ایک گروپ نہیں کرے گا بلکہ یہ دونوں قوموں کا مشترکہ فیصلہ ہوگا۔خیال رہے کہ حال ہی میں اسرائیل کے ایک وفد نے رام اللہ میں صدر محمود عباس سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد صدر عباس کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکی صدر نے ان کے سامنے اردن کے ساتھ الحاق کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے امریکی صدر کو کہا تھا کہ اگر اسرائیل بھی اس کنفیڈریشن کا حصہ بنتا ہے تو وہ اس تجویز کو قبول کرنے کو تیار ہیں۔دوسری جانب اردن نے فلسطین، اردن کنفیڈریشن کی تجویز کو مسترد کردیا ۔ اردنی حکومت کی خاتون ترجمان جمانہ غنیمات نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کنفیڈریشن کی تجویز ناقابل بحث موضوع ہے۔ فلسطین کے حوالے سے اردن کا موقف واضح ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ فلسطین کو بھی ایک آزاد ریاست تسلیم کیا جائے۔ اسرائیل 1967ء کی جنگ سے قبل والی پوزیشن پر واپس جائے اور مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرے۔