لاہور ( این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس ، اثاثوں اور ایمنسٹی سکیم سے متعلق فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ قرضے لے کر ہم نے آنے والی پانچ نسلوں کا رزق کھا لیا، ہم آئندہ نسل کو کو کیا دے کر جا رہے ہیں، اسمگلنگ کی کھلی چھوٹ دے دی گئی، ملکی صنعتوں کو اٹھنے ہی نہیں دیا گیا، قرضوں پر قرضہ لے کر سود دیا جا رہا ہے، پیسے واپس کس نے کرنے ہیں جبکہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایمنسٹی اسکیم پر عدلیہ کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔
گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پاکستانیوں کے بیرون ملک اکانٹس، اثاثوں اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ ، سیکریٹری خزانہ ،چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا اور ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ عدالت نے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانیوں کے جتنے بھی غیر قانونی اکاؤنٹس اور اثاثے ہیں، وہ واپس لے کر آئیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایمنسٹی اسکیم حکومت کی وجہ سے فیل ہوئی،ایمنسٹی اسکیم پر سپریم کورٹ کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ سیکریٹری خزانہ عارف خان نے بتایا کہ پاکستان پر 24.3 ٹریلین روپے قرضہ ہے، گزشتہ پانچ سال میں 38 بلین ڈالرز قرضہ لیا گیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی اور فوجی حکومتوں نے ملکی قرضوں کی بارے میں کچھ بھی نہیں کیا، خدا کا واسطہ ہے کہ قوم کو ان قوانین کی گنجلک سے نکالیں، قرضے لے کر ہم نے آنے والی پانچ نسلوں کا رزق کھا لیا، ہم آئندہ نسل کو کو کیا دے کر جا رہے ہیں، اسمگلنگ کی کھلی چھوٹ دے دی گئی، ملکی صنعتوں کو اٹھنے ہی نہیں دیا گیا، قرضوں پر قرضہ لے کر سود دیا جا رہا ہے،
پیسے واپس کس نے کرنے ہیں۔ہم نے ساری آس سی پیک سے لگا رکھی ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سیکرٹری خزانہ سے استفسار کیا کہ کیا پانی، تعلیم، صحت، ایجوکیشن کے لیے مختص رقم کافی ہے، جس پر سیکرٹری خزانہ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا یہ رقم کافی نہیں ہے۔ ناقص پانی 60 فیصد بیماریوں کی جڑ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے ڈیمز بنانے کی بات کی، قوم پیسے دینے کو تیار ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے کہا کہ
کرنسی کی اسمگلنگ روکنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں، دس ہزار ڈالرز سے زائد رقم کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اسٹیٹ بنک، فارن کرنسی پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے، کیا اسٹیٹ بینک کی پالیسی ہمارے کلچر سے مطابقت رکھتی ہے، آپ ایسا قانون مت بنائیں جس سے آپ کو شرمندگی ہو، آپ کے قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا پھر آپ کہتے ہیں کہ ادارہ کام نہیں کررہا۔چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا نے کہا کہ بنک اکاؤنٹس اور جائیداد کی
تفصیلات حاصل کرنے کے لیے 103 ممالک کے ساتھ معاہدہ یکم ستمبر سے نافذ العمل ہو جائے گا، سوئٹزرلینڈ کے ساتھ الگ معاہدہ کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ دس سال میں یہ معاہدے کیوں نہیں کیے گئے، حکومت نے فارن اکاؤنٹس کو چیک کیوں نہیں کیا، افسران پاکستان کے مالک تھے، بڑے بڑے عہدوں پر فائز افسران نے کیوں کوئی کام نہیں کیا۔ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ صرف دبئی میں پاکستانیوں کی 4ہزار دو سو 40 ارب روپے کی جائیداد موجود ہے، دبئی میں 635 افراد نے جائیداد خرید رکھی ہیں، ان جائیدادوں کی خریداری کے لیے تمام رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوائی گئی، دبئی میں جائیداد خریدنے والے 100 افراد کی لسٹ ایف بی آر کو بھجوائی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس ، اثاثوں اور ایمنسٹی سکیم سے متعلق فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ تحریری فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال لکھائیں گے۔