لاہور( این این آئی)سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ چودھری نثارن لیگ کا ٹکٹ لینے نہ آئے تو خود چلا جاﺅں گا،ان کا کہناتھا کہ چودھری نثار ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن نہ لڑے تو بھی پارٹی نہیں چھوڑیں گے ۔انہوں نے نامزدگی فارم سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے اور انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد اس طرح
کے فیصلے پر نظر یں اور انگلیاں بھی اٹھتی ہیں ،سینیٹ انتخابات اسی ایکٹ کے تحت ہوئے جسے عدالت نے کالعدم قرار دیاہے،ساری جماعتوں کے اتفاق رائے کے بعد یہ ایکٹ پاس ہوا پارلیمنٹ ایکٹ کو کیا اب عدالتیں تبدیل کریں گی ،پارلیمنٹ کا تقدس اہم ہے ۔ یہاں ماڈل ٹاؤن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ میں قومی اسمبلی کا کسٹوڈین تھا میرا حق بنتا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں درخواست کروں کہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے بھی مشاورت ہوئی ہے ۔ میں اپنے وکیل سے بھی مشاورت کرنے جارہا ہوں اور جتنا جلدی ممکن ہو سکے اس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی جائے گی ۔انہوں نے مزید کہا کہ جب قومی اسمبلی کی مدت پوری ہو جاتی ہے جبکہ انتخابات کے لئے شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے تب فیصلہ آتا ہے،اگر یہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے قبل آ جاتاتو بہتر ہوتا۔سینیٹ انتخابات بھی اسی ایکٹ کے تحت ہوئے ہیں جسے عدالت نے کالعدم قرار دیاہے۔اپنی درخواست میں یہ اپیل بھی کروں گاکہ انتخابات جاری کردہ شیڈول اور مقررہ وقت پر ہی ہونے چاہئیں اور تاریخوں میں کوئی رد و بدل نہ کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ کیا جج صاحبہ
کو یہ معلوم نہیں تھاکہ اسمبلی کی مدت کب پوری ہو رہی ہے ، انتخابات کا شیڈول جاری ہو چکا ہے ، اس فیصلے کی کیا منطق ہے ، یہ ایسا فیصلہ ہے جسے ذہن تسلیم نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں اور جب قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے اور الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد ایسا فیصلہ آئے تو اس پر نظریں اور انگلیاں بھی اٹھیں گی ۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کاپارلیمانی بورڈ تشکیل پا چکا ہے
اور ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے جلد فیصلے ہوں گے ۔ انہوں نے نگران وزیر اعلیٰ کی نامزدگی پر پی ٹی آئی کے کردار کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ کوئی چپڑاسی رکھنے کے فیصلے نہیں بلکہ قومی سطح کے فیصلے ہیں ۔ اس میں سوچ سمجھ اور برد باری چاہیے ہوتی ہے ۔ پہلے انہوں نے خیبر پختوانخواہ میں نام دیا ، اسی طرح پنجاب میں نام دیا اور ان کے دئیے ہوئے نام منظور ہوئے اور اس کے بعد ان کے پاؤں کانپنے شروع ہو گئے ۔ یہ کبھی ایک نام دیتے ہیں ، کبھی دو نام دیتے ہیں کبھی ایک نام واپس لیتے ہیں ،یہ فیصلے پیری مریدی ، سوشل میڈیا کے ذریعے نہیں ہوتے بلکہ یہ پاکستان کے فیصلے ہیں ۔ اگر یہ ان کے بس کی بات نہیں تو کسی اور سے سپورٹ مانگ لیں ۔