اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی عمران شفقت نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ میاں نواز شریف جب دوسری دفعہ وزیراعظم بنے تو اس وقت ان کا ہیوی مینڈیٹ تھا، نواز شریف کا پروٹوکول بادشاہوں جیسا ہو گیا تھا، پروٹوکول کے نام پر عجیب و غریب خرافات تھے کہ وہ لاہور میں باغ جنا میں آ کر کرکٹ کھیلا کرتے تھے میاں نواز شریف کے اس شوق کی وجہ سے پورا شہر تنگ ہوتا تھا، سینئر صحافی نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج تھے ان کا پنڈی بنچ میں تبادلہ ہو گیا،
وہ افسرانہ طبیعت کے مالک تھے روزانہ جاتے تھے اور شام کوبذریعہ جہاز اپنے خرچ پر واپس آ جاتے تھے، ایک دن جب لاہور ائیرپورٹ پہنچے ، وی آئی پی لاؤنج سے ان کا آنا جانا تھا، وہاں جا کر انہیں معلوم ہوا کہ فلائٹ میں تاخیر ہے، انتظار کرتے کرتے دو گھنٹے ہو گئے ان کی پریشانی میں اضافہ ہوا کہ وہاں جا کر عدالت لگانی ہے لیٹ ہو رہا ہوں، جا کر صورتحال کا پتہ کروں کہ کیا معاملہ ہے، انہیں بتایا گیا کہ کوئی فنی خرابی ہے جس کی وجہ سیفلائٹ لیٹ ہے۔ پی آئی اے کے ایک ملازم جوشریف فیملی کے پروٹوکول کی وجہ سے شاید زیادہ تنگ تھے وہ جج صاحب کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ طیارہ بالکل ٹھیک ہے صرف میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا انتظار ہو رہا ہے وہ آئیں گے تو فلائٹ روانہ ہو گی، جج صاحب کو یہ بات انتہائی ناگوار گزری اور جج صاحب نے وہاں سوموٹو ایکشن لے لیا، سینئر صحافی نے کہا کہ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی جج نے عدالت کے باہر عدالت لگائی اور وہ بھی ائیرپورٹ پر۔ عدالت لگنے بعد ڈی آئی جی پیش ہو گئے ، ائیرپورٹ کا اسٹیشن منیجر اور سول ایوی ایشن کے آفیسر بھی وہاں پہنچ گئے اور جج صاحب نے فلائٹ کا تمام ریکارڈ بھی منگوا لیا کیونکہ قانون اور ضابطے کے تحت ہر چیز چلتی ہے تو یہ بات پتہ چل گئی کہ جہاز بالکل ٹھیک ہے اور وجہ کوئی اور ہے، اتنے میں اصل وجہ حسین نواز وہاں پہنچ گئے، حسین نوازنے دیکھا کہ ماحول عجیب سا بنا ہوا ہے ، تمام لوگ سہمے ہوئے کھڑے ہیں اور مختلف لوگ لائن میں لگ کر اپنی اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں،
رجسٹر اٹھائے ہوئے ہیں لوگوں نے اور پولیس بھی کھڑی ہے، حسین نواز کو ماحول بہت عجیب سا لگا تو انہوں نے شہزادوں والے انداز میں کہا کہ کیا ہو رہا ہے یہاں ، جج صاحب نے دیکھا کہ یہ کس انداز میں بات کر رہا ہے تو اتنے میں حسین نواز کو بتایا گیا کہ یہ آپ کی وجہ سے ہی عدالت لگی ہوئی ہے، یہ جج صاحب ہیں اور آپ کی وجہ سے یہاں سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن حسین نواز کا بولنے کا انداز وہی رہا تو اس موقع پر جج صاحب نے ڈی آئی جی کو حسین نواز کی گرفتاری کا حکم دے دیا،
اس طرح ایک طاقتور وزیراعظم کے بیٹے کو گرفتار کر لیا گیا، جب نواز شریف تک یہ بات پہنچی کہ لاہور ائیرپورٹ پر ایک جج نے عدالت لگائی ہوئی ہے اور ان کے بیٹے کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ نواز شریف نے اٹارنی جنرل چوہدری فاروق، چوہدری شجاعت جو وزیر داخلہ تھے اور چوہدری پرویز الہی جو سپیکر پنجاب اسمبلی تھے ان کو بھیجا، عدالت چل رہی تھی تو چوہدری شجاعت حسین لاؤنج میں داخل ہوئے تو انہوں نے جج صاحب کے گھٹنے پکڑ لیے،سینئر صحافی نے کہا کہ جج نے بتایا کہ دونوں بھائیوں نے میرے دونوں گھٹنے پکڑ لیے اور وضاحتیں کرنے لگے اور کہا کہ بات باہر چلی گئی تو ہماری عزت نہیں رہے گی، معاف کر دیں، آج کے بعد ایسا نہیں ہو گا،
جج صاحب نے اس موقع پر کوئی سخت ایکشن نہیں لیا اور جتنے آفیسرز موجود تھے انہیں ایک تنبیہ کی کہ آج کے بعد کسی بھی وی آئی پی شخصیت یا وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے پی آئی اے کی کوئی فلائٹ تاخیر کا شکار نہیں کی جائے گی، سینئر صحافی نے جج کا نام بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا نام ملک محمد قیوم تھا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ اتنا آزاد اور خود مختار جج جو وزیراعظم کے بیٹے کوگرفتار کرنے کا آرڈر جاری کرتا ہے اور پھر وقت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ یہی جج انہی شریف برادران کے ہاتھوں اتنا مجبور ہوتا ہے کہ ان کی فون کالیں سنتا ہے ، ان کے کہنے پر بے نظیر بھٹو کو سزا دیتا ہے اور پرویز مشرف کے دور میں ٹیپ سکینڈل سامنے آتا ہے اور وہ انہی دونوں بھائیوں کی وجہ سے انہیں جج شپ کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔