لندن(نیوزڈیسک)ماہرین کو خدشہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت سمارٹ فونز اور سیٹ نیوو جیسے آلات پر دستیاب نقشوں پر اتنا زیادہ انحصار کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ اب نقشہ بینی کی روایتی مہارت کے متروک ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔برطانیہ کے نقشہ سازی اور نقشہ بینی کے معروف ادارے رائل انسٹیٹیوٹ آف نیویگیشن کے مطابق نئی ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار کا مطلب یہ ہے کہ لوگ روایتی طریقوں سے اپنا راستہ تلاش کرنے کی صلاحت کھو رہے ہیں۔ خدشے کے پیش نظر آر آئی این کی خواہش ہے کہ سکولوں میں بچوں کو نقشہ بینی کی بنیادی تربیت حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ادارے کے صدر روجر میکنلے نے بتایا کہ ہمارہ معاشرہ نت نئے ’سوفٹ ویئرز کے نشے میں مبتلا ہو چکا ہے یہ فکرمندی کی بات ہے کہ آج کل کے بچے سکول اور گھر میں نئے نئے آلات پر تلاش کا بٹن دبانے کے علاوہ کچھ اور نہیں سیکھ رہے۔روجر میکنلے کے مطابق اکثر لوگ اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے نہ تو کوئی نقشہ پڑھ سکتے ہیں اور نہیں ہی قطب نما استعمال کر سکتے ہیں ¾ستاروں کی مدد سے کسی مقام کی نشاندھی کی تو بات ہی چھوڑ دیںآر آئی این کے ڈائریکٹر پیٹر اینڈریوز نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بڑی ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی انسانی سوچ کی جگہ نہ لے لے انھوں نے خبردار کیا کہ ضروری نہیں کہ سمارٹ فونز اور سیٹ نیووز میں لگے ہوئے جی پی ایس ہمیشہ آپ کو درست سمت ہی بتائیںمسٹر اینڈریوز نے بتایا کہ ہم لوگ ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں۔ بلکہ ہم ٹیکنالوجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاہم ہم اپنی عقل استعمال کیے بغیر ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے کےخلاف ہیںاس سلسلے میں برطانیہ میں نقشہ سازی کے قومی ادارے آرڈنینس سروے نے کہاکہ اگر آپ نقشہ پڑھنے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں تو آپ گھر سے باہر اپنے وقت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں چاہے آپ اس وقت چہل قدمی کر رہے ہوں، سائیکل چلا رہے ہوں گھڑسواری کر رہے ہوں یا محض سیر کو نکلے ہوں۔