ڈھاکہ(مانیٹرنگ ڈیسک) بنگلہ دیش کے روہنگیا پناہ گزین کیمپوں سے نوجوان لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے سمگل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ،برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق غیر ملکی افراد کو یہ نو عمر جوان لڑکیاں بہ آسانی دستیاب ہیں جو کہ میانمار (برما) میں جاری تصادم کے نتیجے میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہیں اور اب ان کے سامنے ایک نیا خطرہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق سمگلنگ کی کہانی پناہ گزین کیمپ میں چاروں جانب بکھری پڑی ہیں۔ خواتین اور بچے ان کے زیادہ شکار ہیں جنھیں لالچ دے کر کیمپ سے باہر لے جایا جاتا ہے اور محنت مزدوری یا پھر جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔بچوں کے استحصال کے خلاف بیداری پیدا کرنے والے ادارے فاؤنڈیشن سینٹینل کے ساتھ برطانوی نشریاتی ادارے کی ٹیم نے اس کاروبار کے پس پشت کام کرنے والے نیٹ ورک کے بارے میں تفتیش شروع کی کیونکہ انھوں نے اس بابت بہت سن رکھا تھا۔بچوں اور ان کے والدین نے بتایا کہ انھیں بیرون ملک اور دارالحکومت ڈھاکہ میں گھریلو ملازمت، ہوٹل اور کچن میں کام کی پیشکش کی گئی۔ کیمپ میں موجود افراتفری بچوں کو جنسی صنعت میں دھکیلنے کے بڑے مواقع فراہم کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جسم فروشی کے علاوہ ان کے پاس اپنے اور گھر والوں کو کھلانے کا دوسرا راستہ نہیں ہے۔روہنگیا بحران نے بنگلہ دیش میں جسم فروشی کی صنعت کو پیدا نہیں کیا ہے لیکن عورتوں اور بچوں کی فراہمی میں اضافہ کیا ہے۔ بنگلہ دیش کے روہنگیا پناہ گزین کیمپوں سے نوجوان لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے سمگل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ،برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق غیر ملکی افراد کو یہ نو عمر جوان لڑکیاں بہ آسانی دستیاب ہیں جو کہ میانمار (برما) میں جاری تصادم کے نتیجے میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہیں اور اب ان کے سامنے ایک نیا خطرہ ہے۔رپورٹ کے مطابق سمگلنگ کی کہانی پناہ گزین کیمپ میں چاروں جانب بکھری پڑی ہیں۔