ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پولیس مقابلے کے وقت عدم موجودگی، رائو انوار کے جھوٹ کا پول کھل گیا،نقیب اللہ کو مارتے وقت کتنے اہلکار ساتھ تھے تحقیقاتی رپورٹ میںسب کچھ سامنے آگیا

datetime 27  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی) نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں راؤ انوار کے دعوؤں کا بھانڈا پھوٹ گیا۔سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری کے روز شاہ لطیف ٹاؤن پولیس مقابلے میں دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جس میں نقیب اللہ کو بھی دہشت گرد بتا کر ہلاک کیا گیا تھا تاہم معاملہ میڈیا پر آنے اور تحقیقات شروع ہونے پر راؤ انوار نے

مقابلے کے وقت جائے وقوعہ پر اپنی موجودگی سے انکار کردیا تھا۔معطل ایس ایس پی راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ نقیب اللہ کے پولیس مقابلے کے وقت وہ وہاں موجود نہیں تھے، یہ مقابلہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت نے کیا۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نقیب کیس کی سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں راؤ انوار کے دعوے کو شواہد کی بنیاد پر جھوٹا ثابت کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق راؤ انوار اور ان کے دیگر انتہائی قریبی ساتھیوں کے موبائل فون نمبرز کے فورنزک اور کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) کیے گئے جس میں ثابت ہوا ہے کہ مقابلے میں شامل پولیس اہلکار و افسران ہر وقت راؤ انوار کے ساتھ پائے گئے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ نقیب اللہ پولیس مقابلے کیوقت راؤ انوار سمیت 9 پولیس اہلکار موقعہ پر موجود تھے اور سی ڈی آر میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ پولیس مقابلے کے دورانیے میں راؤ انوار کے علاوہ 8 دست راست بھی ان کے ساتھ تھے۔رپورٹ کے مطابق موبائل فون فورنزک اور سی ڈی آر میں راؤ انوار کا ان افسران اور اہلکاروں سے لمحہ با لمحہ رابطہ ثابت ہوا اور یہ تمام افراد ہروقت ایک دوسرے کیساتھ پائے گئے۔رپورٹ کے مطابق فرانزک تجزیئے سے ثابت ہوا ہیکہ اے ایس آئی خیر محمد، سب انسپکٹر محمد انار اور گدا حسین،

راؤ انوار کے قریب ترین ساتھی ہیں جبکہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت اور ایس ایچ او سچل محمد شعیب بھی ان کے اعتماد والے افسران میں شامل ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ دو ہیڈ کانسٹیبل فیصل محمود، محسن عباس اور کانسٹیبل راجہ شمیم راؤ انوار کے انتہائی قریبی پائے گئے ہیں، یہ وہ افسران و اہلکار تھے جو کئی سالوں سے راؤ انوار کے دست راست ہیں اور ان کا آپس میں لمحہ بہ لمحہ رابطہ تھا۔

رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ نقیب اللہ کو تین جنوری کو حراست میں لیا گیا اور گرفتاری کے وقت نقیب اللہ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر تھا جبکہ اسے حراست میں لینے والے پولیس اہلکاروں کا سی ڈی آر بھی اسی علاقے سے ملا۔پولیس رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود کے فون فورنزک نے بھی پولیس مقابلہ جعلی ثابت کردیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ڈیٹا ریکارڈ سے نقیب کے زیرحراست

ہونے کی تصدیق ہوئی، نقیب اللہ کا موبائل فون 4 جنوری کو بند ہوا، اس کے زیر استعمال دو موبائل فون سے دہشت گردوں سے رابطوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔واضح رہے کہ راؤ انوار پولیس مقابلہ جعلی ثابت ہونے کے بعد سے روپوش ہیں جبکہ اس دوران انہوں نے اسلام آباد سے بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کی جو ایف آئی اے نے ناکام بنائی۔راؤ انوار کے بیرون ملک فرار ہونے کی خبر پر

چیف جسٹس پاکستان نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…