اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) رائو انوار کے ملیر میں تین فارم ہائوسز میں ٹارچر سیلز کا انکشاف، بیگناہ شہریوں کو اٹھاکر لایا جاتا اور اہل خانہ سے لاکھوں روپے تاوان وصول کیا جاتا ، تاوان ادا نہ کرنے والوں کو جعلی مقابلوں میں دہشتگرد قرار دیکر ہلاک کر دیا جاتا، اس کام کیلئے خصوصی ٹیم تشکیل دے رکھی تھی،نقیب اللہ محسود اور اس کے دوستوں کو بھی تاوان کی بھاری رقم حاصل کرنے
کیلئے ہوٹل سے اٹھایا، دوست بھاری تاوان لیکر چھوڑ دئیے جبکہ نقیب اللہ محسود کو رقم نہ ملنے پر جعلی مقابلے میں مروا دیا گیا، قومی اخبار کی رپورٹ میں ہولناک انکشافات سامنے آگئے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کے موقر قومی اخبار روزنامہ امت کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رائو انوار کراچی شہر میں اغوا برائے تاوان کا ایک بہت بڑا ریکٹ چلا رہا تھا اور اس نے ملیر کے علاقے میں تین فارم ہائوسز میں ٹارچر سیلز قائم کر رکھے تھے جبکہ بیگناہ شہریوں کو شہر کےمختلف علاقوں سے اٹھا کر ان ٹارچر سیلوں میں لایا جاتا اور ان کے اہل خانہ سے لاکھوں روپے تاوان وصول کیا جاتا۔جن افراد کے اہل خانہ تاوان ادا نہ کر سکتے ان کو جعلی پولیس مقابلوں میں دہشتگرد قرار دیکر ہلاک کر دیا جاتا ۔ رائو انوار نے اس مذموم دھندے کیلئے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے رکھی تھی۔ راؤ انوار کے اغوا کار ٹیم کے اہلکار شہرکے مختلف علاقوں سے ایسے شہریوں کو اٹھاتے تھے، جن کے پاس کم سے کم 10 لاکھ روپے نکل سکیں، اغوا کار ٹیم کے مخبر ملیر زون میں دوسرے شہروں سے آنے والے شہریوں کا مکمل ڈیٹا جمع کرتے تھے اور ان سے دوستیاں کرنے کے بعد ان کا بینک بیلنس معلوم کرتے تھے، جس کے بعد وہ اغوا کار ٹیم کے اہلکاروں کو شہری کی مکمل معلومات اور لوکیشن بتاتے تھے، جس کے بعد راؤ انوار کی بنائی گئی اغوا کار ٹیم شہری کو اٹھا کر ٹارچر سیل
میں لے آتی تھی اور دو سے تین دن تشدد کرنے کے بعد اس کے بارے میں تمام معلومات جمع کرکے اس ے اہلخانہ سے مخبروں کے ذریعے رابطہ کرواتی تھی اور تاوان کی رقم کے حوالے سے معاملات طے کئے جاتے تھے۔ رقم ملنے کے بعد ان شہریوں کو سپر ہائی وے پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔اخباری ذرائع کے مطابق راؤ انوار کی اغوا کار ٹیم نے تین جنوری کو نقیب کو اس کے دو دوستوں
قاسم اور علی کے ساتھ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع ہوٹل سے اٹھایا تھا، بعد میں نقیب کے دو دوستوں کو بھاری تاوان کی رقم لے کر رہا کردیا تھا۔ اخبار کا کہنا ہے کہ راؤ انوار کی ٹیم کے ایک مخبر نے نقیب کے بارے میں بتایا تھا کہ اس کے پاس کم سے کم 50 لاکھ روپے سے زائد رقم ہے اور اس نے الآصف سکوائر پر 2 دکانیں بھی کرائی پر لی ہیں، جن کا ایڈوانس ایک لاکھ روپے سے زائد ادا کیا ہے۔
اس کے علاوہ اس نے اپنے گاؤں سے بھی رقم منگوائی ہے۔ راؤ انوار کی اغوا کار ٹیم کے اہلکاروں نے نقیب کے اہلخانہ کو تاوان کی رقم کیلئے فون بھی کیا تھا اور تاوان کی رقم نہ ملنے پر راؤ انوار نے دیگر 3 افراد کے ساتھ 13 جنوری کو بے گناہ نوجوان نقیب اللہ کو مقابلے میں قتل کرکے کالعدم تنظیم کا خطرناک دہشتگرد ظاہر کیا تھا۔اخبار کا کہنا ہے کہ راؤ انوار جعلی مقابلے میں کئی بے گناہ شہریوں
کو قتل کرچکا ہے، جس وقت بے گناہ شہریوں کے اہلخانہ سردخانے سے لاش وصول کرنے کیلئے آتے تھے تو راؤ انوار کی ٹیم میں شامل بدمعاش اہلکار قتل ہونے والے شہری کے اہلخانہ کو دھمکیاں دیتے تھے اور ان کو کہا جاتا تھا کہ لاش خاموشی سے لے کر کراچی سے چلے جاؤ، ورنہ جس طرح اس کا حال ہوا ہے، تمہارے پورے خاندان کا یہی حال ہوگا، دھمکیاں ملنے کے بعد مغوی کے اہلخانہ خاموشی
سے لاش لے کر چلے جاتے تھے۔ان ٹارچر سیل کے باہر اور اندر ہر وقت سادہ لباس اہلکار موجود ہوتے تھے اور ان فارم ہاؤسز پر کسی بھی پولیس افسر کو راؤ انوار کی اجازت کے بغیر جانے کی اجازت نہیں تھی۔رپورٹ کے مطابق راؤ انوار ٹارچر سیل ناردرن بائی اور نیشنل ہائی وے پر واقع ہے۔ راؤ انوار کے ٹارچل سیل کے حوالے سے پولیس کے اعلیٰ افسران نے تمام ڈیٹا جمع کرلیا ہے
اور ان ٹارچر سیل پر کسی بھی وقت کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔