اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاک فوج کے سابق جنرل ضیا الحق کے مارشل لا پراب تک کڑی تنقیدی کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک منتخب حکومت(ذوالفقارعلی بھٹو) کا تختہ الٹ کر اقتدار پر غاصبانہ قبضہ جمایا تھا ،لیکن دوسری جانب ایسی گواہیاں بھی موجود ہیں جو اس بات کے ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ مارشل لا اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی مرضی کے مطابق لگایا گیا تھا۔کوئی چیز اچانک نہیں ہوئی ،بھٹو خود انہیں مارشل لگانے
اور اپوزیشن کو سختی سے دبانے کی دعوت دیتے تھے۔ممتاز بزرگ صحافی الطاف حسن قریشی نے جنرل ضیا الحق کی زندگی میں ہی ان کا ایک یادگار انٹرویو کیا تھا جو بعد ازاں ایک مقامی اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا جس میں جنرل ضیا الحق نے خود اس مارشل لا کی وجوہات بیان کیں اور جس وقت مارشل لا لگایا اسکی کیفیات کا بھی اظہار کیا تھا ۔جنرل ضیا الحق نے اس بارے کہا تھا کہ جون کے آخری دنوں میں مسٹر بھٹو نے فوجی جرنیلوں کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بلانا شروع کر دیا۔ بعض مواقع پر عجیب و غریب باتیں سامنے آتیں۔ ایک رات مسٹر کھر اور مسٹر پیرزادہ نے کہا اپوزیشن شرارت سے باز نہیں آتی۔ ٹکا خاں کے لب و لہجے میں اور بھی تیزی تھی۔ ان کا ارشاد تھا دس بیس ہزار افراد پاکستان کی خاطر قتل بھی کر دینے پڑیں تو کوئی بْری بات نہیں مسٹر بھٹو بار بار کہتے جنرل صاحب ! دیکھا آپ نے میری کابینہ کا موڈ۔ میں ان حالات میں اپنے وزیروں کا ساتھ دینے کے سوا اور کیا کر سکتا ہوں۔ایک کے بعد ایک رات کا بینہ کی پھر میٹنگ ہوئی۔ بھٹو صاحب خاصے پریشان نظر آتے تھے۔ دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد بولے، آئیے جرنیل صاحب آپ بھی اقتدار میں شامل ہو جائیں۔ زیادہ تر اختیارات آپ ہی کے ہاتھ میں ہوں گے۔ بس ایک بار اپوزیشن کو چھٹی کا دودھ
یا دآجائے،اس نوع کی باتیں اب ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھیں۔پہلی جولائی کو یہی تماشارات کے ڈیڑھ بجے تک ہوتا رہا۔ دوسری جولائی کو بھی اس ڈرامے کی ریہرسل کی گئی۔ تین جولائی کی رات کو میرے اعصاب نے حقیقی خطرہ بھانپ لیا‘ چنانچہ میں بڑے اقدام کا جائزہ لینے لگا۔ حکومت کی ذہنی کیفیت میرے سامنے تھی۔ اب صرف اپوزیشن کے نقطہ کا انتظار تھا۔شام کے پانچ بجے مجھے معلوم ہوا کہ نواب زادہ نصر اللہ خاں پریس کانفرنس
سے خطاب کر رہے ہیں، چنانچہ اسی وقت پوری رپورٹ حاصل کی۔ ان کا ردِ عمل وہی تھا جس کی مجھے توقع تھی ! چنانچہ ساڑھے پانچ بجے کے قریب میں نے راولپنڈی سے باہر احکام جاری کر دیئے کہ رات کے بارہ بجے نقطہ آغاز ہو گا۔شام کے آٹھ بجے پرائم منسٹر ہاؤس سے ٹیلی فون آیا کہ آج رات پھر کابینہ کا اجلاس ہو گا اور آپ کی شرکت ضروری ہے جلد ہی وقت بتا دیا جائے گا۔ یہ پیغام میرے لیے بہت زیادہ تشویش کا باعث بنا۔ اگر
بار ہ بجے تک اجلاس جاری رہا اور میں بھی اس میں شریک ہوا تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں ، چنانچہ راولپنڈی کیلئے میں نے وقت آگے بڑھا دیا۔ایک ایک لمحہ جسم کے اندر کانٹے کی طرح پیوست ہو اجاتا تھا۔ ہزاروں خدشات ، یہ بھی اندیشہ تھا کہ ہمارے منصوبے کا اگر کسی کو علم ہو گیا تو کچھ بھی وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔یہ راز صرف چند افراد تک محدود تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عجب طرح کا احساس منڈلانے لگا تھا۔خیال کی
ایک لہر اٹھی کہ ضیا، تم کہیں غلطی پر تو نہیں؟ کیا تم پاکستان کو مارشل لا سے بحفاظت تمام گزار سکو گے؟ میں نے وضو کیا اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کی۔ نماز میں ایک ایسی لذت نصیب ہوئی جو پہلے کبھی میسر نہ آئی تھی۔ ساڑھے دس بجے کے قریب خیال آیا کہ پرائم منسٹر ہاؤس سے رابطہ قائم کر کے کابینہ کے اجلاس کے بارے میں پوچھا جائے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ہاٹ لائن پر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ وزیراعظم دوسری
جانب تھے۔ انہوں نے نوابزادہ نصر اللہ خاں کی پریس کانفرنس کا ذکر کیا اور حسب معمول اپوزیشن کے رویوں کی شکایت کرتے رہے۔ میں نے پوچھا کابینہ کی میٹنگ کتنے بجے ہو رہی ہے۔ جواب ملا آج رات کو نہیں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور راولپنڈی کو بھی احکام جاری کر دیئے۔پرائم منسٹر ہاوس میں تین طرح کے ٹیلی فوج ایکسچینج تھے۔ ایک عام ایکسچینج۔ دوسری گرین لائن اور تیسری ہاٹ لائن۔ عام ایکسچینج تو ہماری گرفت میں تھا
، لیکن باقی دو لائنوں پر ہمارا کوئی اختیار نہ تھا، چنانچہ عام ایکسچینج کی لائنیں کاٹ دی گئیں۔ صر ف دو ٹیلی فون کنکشن اْسی طرح رہنے دیئے۔رات کے بارہ بجے میں خود جنرل ہیڈ کوارٹرز پہنچ گیا اور پورے آپریشن کی نگرانی تن تنہا کی۔ اس رات ممتاز بھٹو بڑی دیر تک پرائم منسٹر ہاوس میں رہے۔ رات گئے گھر پہنچے تو فوج کی پْراسرار نقل و حرکت دیکھی۔ ادھر وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری میجر جنرل امتیاز نے فوجی دستوں کو غیر معمولی
سرگرم پایا جنرل امتیاز نے مجھے فون کیا۔ میں نے بتا دیا کہ یہ سب کچھ میرے حکم سے ہورہا ہے اور تم ہدایات لینے کیلئے میرے پاس چلے آئو۔اتنے میں مسٹر ممتاز بھٹو گرین لائن پر مسٹر بھٹو سے رابطہ قائم کر چکے تھے۔ وزیراعظم نے مجھ سے بات کی۔ میں نے کہا ’’ سر ! اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تھا۔ اب آپ ہمارے ساتھ تعاون کیجئے۔ دوسری صورت میں ہمیں طاقت استعمال کرنا ہو گی۔‘‘’’نہیں یہ نوبت نہ آئے گی۔ ‘ انہوں نے پر سکون لہجے
میں کہا۔ ’’ آپ میرے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں؟‘‘’’بس آپ کو حراست میں لیں گے۔ صبح تک چک لالہ رکھیں گے ، پھر مری لے جائیں گے۔‘‘’’ میرے بچے آج رات ہی آئے ہیں۔ میں تو اچھی طرح ان سے مل بھی نہ سکا‘‘’’آپ آرام سے یہ رات پرائم منسٹر ہائوس ہی میں گزاریئے ، اگلے روز مری کے لیے تیار ہو جائیے‘‘’’ہاں، ہاں ، شکریہ!‘‘ٹیلی فون بند ہو گیا۔۔۔۔اور تاریخ کا ایک باب بھی ‘‘،واضح رہے کہ آج بھی اس مارشل لا کا ذمے دار ضیاالحق کو قرار دیا جاتا ہے۔