ماسکو(مانیٹرنگ ڈیسک) روس کی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ شدت پسند تنظیم داعش کے لگ بھگ10 ہزار عسکریت پسند افغانستان میں موجود ہیں اور کیونکہ شام اور عراق سے فرار ہونے والے جنگجو بھی جنگ سے تباہ حال اس ملک کا رخ کر رہے ہیں تو یہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔روسی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان میں روسی صدر کے خصوصی نمائندہ ضمیر کابلوف نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا کہ ماسکو خاص طور پر تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ
واقع شمالی افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی آماجگاہوں پر فکر مند ہے، روس ان اولین آوزوں میں شامل ہے جس نے افغانستان میں داعش سے متعلق خطرے پر آواز اٹھائی داعش نے حال ہی میں اس ملک میں اپنی قوت خاطر خواہ طور پر بڑھائی۔انہوں نے کہا کہ اس کے عسکریت پسندوں کی تعداد10 ہزار سے زیادہ ہے اور بتدریج بڑھ رہی ہے، خاص طور پر شام اور عراق سے نئے جنگجووں کی آمد کی وجہ سے۔روسی نمائندہ خصوصی نے کہاکہ بغیر کسی شناخت والی” ہیلی کاپٹر ان جنگجووں کو منتقل کر رہے ہیں اور اس شدت پسند تنظیم کی افغان شاخ کو مغربی آلات فراہم کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ماسکو تواتر سے یہ معاملہ اقوام متحدہ اور نیٹو کے سامنے اٹھاتا رہا ہے لیکن اس بارے میں اسے تاحال کوئی واضح ردعمل موصول نہیں ہوا۔کابلوف کا کہنا تھا کہ خاص طور پر افغان صوبوں جوز جان اور سرپل میں صورتحال تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہاں مقامی افراد نے بھی داعش سے وابستہ الجزائر اور فرانسیسی عسکریت پسندوں کو دیکھا ہے۔انھوں نے اس فکر کا مزید تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد گروپ اپنا اثر روس کے جنوبی خطوں اور وسطی ایشیا میں اس کے شراکت دار ممالک تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔کابلوف کا اصرار تھا کہ ہم باقاعدگی سے نیٹو شراکت داروں سے جو کہ افغانستان کی فضائی حدود کو کنٹرول کر رہے ہیں، اس بارے میں پوچھتے آ رہے ہیں، لیکن ہمیں ابھی تک کوئی معقول جواب سننے کو
نہیں ملا۔افغانستان میں نیٹو کے حکام ماسکو پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کی حمایت یافتہ افغان حکومت سے مہلک محاذ آرا طالبان کو مسلح کر رہا ہے۔افغان حکام ملک میں داعش کے وفاداروں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر تحفظات کو مسترد کرتے ہیں۔ وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے اس ہفتے صحافیوں کو بتایا تھا کہ امریکی فضائی کارروائیوں کی مدد سے گزشتہ نو ماہ میں کیے جانے والے سکیورٹی فورسز کے آپریشنز میں داعش کے اعلی کمانڈروں سمیت تقریبا 1600 جنگجو ہلاک ہوئے۔داعش نے 2015 میں مشرقی افغانستان میں اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا اور امریکی فوج کے اندازوں کے مطابق اس کے عسکریت پسندوں کی تعداد لگ بھگ3 ہزار ہے۔امریکی حکام کا کہناتھا کہ افغان فورسز کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف کارروائیاں کی گئیں جس کے بعد سے اس گروپ کے افغانستان میں موجود ایک تہائی عسکریت پسندوں کو ہلاک اور خاطر خواہ علاقوں سے اس کا اثرورسوخ کم کر دیا گیا ہے۔