اسلام آباد (این این آئی)پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ دفاع اور خارجہ کی پالیسیاں بنائے ٗہم اس پر عمل کرینگے ٗٹی وی پر تبصرہ کر نیوالے ریٹائرڈ افسران ہمارے ترجمان نہیں ٗ فوج کا آئین میں جو کردار ہے اس سے مطمئن ہوں، فوج آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور کریگی ٗ 41ملکی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں ٗ اتحاد کے ٹی او آرز ابھی طے ہونا باقی ہیں ٗ ایران اور سعودی عرب کی لڑائی نہیں ہوگی ٗہم
ایسا نہیں ہونے دینگے ٗخطے کی جیو اسٹریٹجک صورتحال پر گہری نظر ہے ٗ افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے ٗ پاکستان کو لاحق تمام خطرات کا مل کر مقابلہ کریں گے ۔منگل کو چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی زیرصدارت سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے تک جاری رہا جس میں آرمی چیف نے قومی سلامتی اور اپنے بیرون ملک دوروں سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار ٗڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور ڈی جی ملٹری آپریشن میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا بھی موجود تھے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی سلامتی سمیت علاقائی سیکیورٹی سے متعلق سینیٹ کی کمیٹی کو آگاہ کیا ٗ سربراہ پاک فوج کی بریفنگ کے بعد سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا جس کے دوران سینیٹرز کی جانب سے کھل کر سوالات کیے گئے جن پر آرمی چیف نے جوابات دئیے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حکمت عملی پر بریفنگ دی گئی جبکہ ڈی جی ایم او نے سیکیورٹی سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔نجی ٹی وی کے مطابق آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ نے سینیٹ کے ارکان کو بریفنگ
دیتے ہوئے کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کی ایک اہم کمیٹی میں شریک ہوا ہوں۔انہوں نے کہاکہ بعض اہم ممالک کے دورے فوجی سفارتکاری کا حصہ ہیں اور علاقائی ممالک سے تعلقات میں بہتری کیلئے آرمی چیف کے دورے معاون ثابت ہوئے۔ذرائع کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ خطے کی جیو اسٹریٹجک صورتحال پر گہری نظر ہے ٗ افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔بریفنگ کے
دوران انہوں نے کہاکہ بارڈر مینجمنٹ پاک ٗافغان سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے ناگزیر ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ ٹی وی پر تبصرہ کر نیوالے ریٹائرڈ افسران ہمارے ترجمان نہیں ۔انہوں نے کہاکہ جولوگ ٹی وی پر ہمارے ترجمان بنتے ہیں ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔آرمی چیف نے کہاکہ ایران اور سعودی عرب کی لڑائی نہیں ہوگی ہم ایسا نہیں ہونے دینگے ۔ انہوں نے کہاکہ 41ملکی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں ٗ اتحاد کے ٹی او آرز ابھی طے ہونا
باقی ہیں ۔نجی ٹی وی کے مطابق مختلف سینیٹرز نے دھرنوں سے متعلق سوالات پوچھے جس پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید نے دھرنوں میں فوج کے کردار کی نفی کی ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سوال کیا کہ کیا فوج کو موجودہ رول سے بڑھ کر کردار چاہیے جس پر آرمی چیف نے کہا کہ فوج کا آئین میں جو کردار ہے اس سے مطمئن ہوں، فوج آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور کریگی۔ بعدا زاں میجر جنرل آصف غفور نے
صحافیوں کو بتایا کہ تمام سینیٹرز نے افواج پاکستان کے کردار کو سراہا اور قربانیوں کو تسلیم کیا جب کہ تمام سوالات میرٹ پر کیے گئے اور آرمی چیف نے ان کے تفصیلی جوابات دئیے۔ترجمان پاک فوج کے مطابق تمام ارکان سوال نہیں کرسکے تاہم کچھ ارکان کے سوالات تھے جن پر آرمی چیف نے جواب دے کر ان کے تحفظات دور کر دئیے۔ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے طویل انتظار کے لیے صحافیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ
تفصیلی پریس کانفرنس آئندہ تین سے چار روز کے دوران کریں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ممبران سیکیورٹی صورت حال پر زیادہ باخبر تھے جبکہ سیکیورٹی صورتحال پر پاک فوج کے کردار کی تعریف کی گئی اور اتفاق کیا گیا کہ پاکستان کو لاحق تمام خطرات کا مل کر مقابلہ کریں گے اور جب ہم سب متحد ہیں تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا ۔نجی ٹی وی کے مطابق ڈی جی ایم او جنرل ساحر شمشاد مرزا کی جانب سے سینیٹ کو
بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں نے اب تک 274 مقدمات کا فیصلہ کیا ٗ161 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی جن میں سے 56 مجرموں کو پھانسی دی گئی ٗ13 مجرموں کو آپریشن ردالفساد سے پہلے پھانسی دی گئی اور 43 کو آپریشن کے بعد پھانسی دی گئی۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے پر مقدمات پر کارروائی روک دی گئی تھی بعد ازاں 28 مارچ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی گئی۔ذرائع کے
مطابق سینیٹ ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے فوجی حکام نے بتایا کہ آپریشن رد الفساد کے تحت اب تک خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 1249 کومبنگ اور انٹیلی جنس بیس آپریشن کئے گئے، پنجاب میں 13011 کاروائیاں کی گئی، بلوچستان میں 1410 اور سندھ میں 2015 آپریشنز کئے گئے۔ذرائع کے مطابق پنجاب میں7 اہم آپریشن جبکہ بلوچستان میں 29 اہم آپیشنز کئے گئے، سندھ میں 2 ، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 31 اہم آپریشنز کئے گئے، مجموعی طور
پر آپریشن رد الفساد کے دوران 69 اہم آپریشنز کئے گئے۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ انٹیلی جنس اطلاعات پر مجموعی طور پر 18001 کاروائیاں کی گئی اور4983 سرچ آپریشن کئے گئے، جن میں سے پنجاب میں 4156، بلوچستان میں 45، سندھ میں 224، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں 558 سرچ کریشن کئے گئے جبکہ اس دوران مجموعی طور پر 19993 ہتھیار برا?مد کیے گئے، جن میں پنجاب سے 2751، بلوچستان 2332، سندھ سے 1046، خیبر
پختونخوا اور فاٹا سے 13864 ہتھیار بر آمد ہوئے۔فوجی حکام کے مطابق کراچی میں 5 ستمبر 2013 سے رینجرز کی جانب سے جاری آپریشن کے دوران 5 برس میں کل 11200 آپریشن کیے گئے، جس میں سے 2013 میں 1298 آپریشن، 2014 میں 3086، 2015 میں 2466 جبکہ 2016 میں 2022 اور 2017 میں اب تک 2328 آپریشن کیے گئے۔ذرائع کے مطابق ان آپریشنز کے دوران کل 8780 افراد کو پولیس کے حوالے کیا گیا
جس میں 2013 میں 1264 افراد، 2014 میں 2358 افراد، 2015 میں 2181 افراد، 2016 میں 1207 جبکہ 2017 میں 1770 افراد کو پولیس کے حوالے کیا گیا، آپریشن کے دوران ان پانچ سالوں میں رینجرز نے 12 ہزار 105 ہتھیار برا?مد کیے جبکہ سب سے زیادہ ہتھیار سال 2014 میں برآمد کیے گئے، جن کی تعداد 3946 تھی، اسی طرح 2013 میں 1917 ہتھیار، 2015 میں 2819، 2016 میں 1887 جبکہ 2017 میں 1536 ہتھیار
برآمد کیے گئے۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ ان آپریشنز کے دوران 1948 دہشت گرد گرفتار کیے گئے، جس میں 2013 میں 51، 2014 میں 478، 2015 میں 614، 2016 میں 356 جبکہ 2017 میں 449 دہشت گردوں کو رینجرز نے گرفتار کیا، آپریشن کے دوران 1589 ٹارگٹ کلرز کو بھی گرفتار کیا گیا، جس میں سب سے زیادہ 2017 میں 520 ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے، اس کے علاوہ 2013 میں 212، 2014 میں 214، 2015 میں 614 اور
2016 میں 356 ٹارگٹ کلر گرفتار کیے گئے۔سینیٹرز کو بتایا گیا کہ کراچی آپریشن کے دوران 601 بھتہ خور گرفتار کیے گئے، سب سے زیادہ 167 بھتہ خوروں کو 2013 میں گرفتار کیا گیا، اس کے علاوہ 2014 میں 97، 2015 میں 99، 2016 میں 77 اور 2017 میں 161 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا گیا۔ان 5 برسوں میں 154 اغوا برائے تاوان کے ملزموں کو بھی گرفتار کیا گیا، ان ملزمان میں 2013 میں 14، 2014 میں 27، 2015 میں
49 اور 2016 میں 28 شامل ہیں جبکہ 2017 میں 36 اغوا کاروں کو گرفتار کیا گیا، آپریشن کے دوران 154 مغویوں کو اغوا کاروں سے بازیاب کرایا گیا، جن میں 2015 میں سب سے زیادہ 103 مغوی بازیاب کرائے گئے جبکہ 2013 میں 10، 2014 میں 25، 2016 میں 13 اور 2017 میں 3 مغوی بازیاب کرائے گئے۔بریفنگ کے دوران فوجی حکام نے سینیٹرز کو بتایا کہ کراچی آپریشن کے دوران 5 سال میں 24 رینجرز کے جوان شہید ہوئے
، آپریشن کے آغاز میں سال 2013 میں 3 جوان، 2014 میں 13، 2015 میں 8 جبکہ 2016 اور 2017 میں کوئی شہادت نہیں ہوئی، اس کے علاوہ ان آپریشنز میں 94 جوان مسلح مقابلوں میں زخمی بھی ہوئے، جن میں 2013 میں 17، 2014 میں 37، 2015 میں 23 اور 2016 میں 5 جبکہ 2017 میں 12 جوان زخمی ہوئے۔ذرائع کے مطابق فوجی حکام نے بتایا کہ رینجرز کی جانب سے کیے گئے آپریشن کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال
میں کافی بہتری آئی اور 2013 میں دہشت گردی کے 57 واقعات کے مقابلے میں 2017 میں صرف ایک واقعہ رونما ہوا، اس کے علاوہ 2014 میں 66 واقعات ہوئے جبکہ 2015 میں 18 اور 2016 میں یہ تعداد 16 رہی۔آپریشن کے بعد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی کمی آئی، 2013 میں 965 واقعات رونما ہوئے جبکہ 2017 میں 46 واقعات، 2014 میں 602، 2015 میں 199، 2016 میں 89 ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہوئے،
اسی طرح 2013 میں بھتہ خوری کے سب سے زیادہ 1524 کیسز ریکارڈ ہوئے جبکہ 2014 میں 899، 2015 میں 303، 2016 میں 101 اور 2017 میں ان کی تعداد 48 ریکارڈ کی گئی۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ 2013 میں اغوا برائے تاوان کے 174 کیسز سامنے آئے، اس کے علاوہ 2014 میں 115، 2015 میں 37، 2016 میں 26 جبکہ 2017 میں 13 کیسز سامنے آئے۔اس سے قبل آرمی چیف پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو ڈپٹی چیئرمین
سینیٹ مولانا عبد الغفور حیدری نے ان کا استقبال کیا جس کے بعد وہ چیرمین سینیٹ کے چیمبر میں چلے گئے۔نجی ٹی وی کے مطابق آرمی چیف جنر ل قمر جاوید باجوہ جب ایوان میں داخل ہوئے تو انہوں نے ایوان کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنی فوجی کیپ پہن لی۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے آرمی چیف کو جمہور گلی بھی دکھائی جس میں قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جمہوریت کیلئے خدمات انجام دینے والی شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور آرمی چیف کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے جب کہ ڈی جی ملٹری آپریشن میجر جنرل ساحر شمشاد نے ان کی آمد سے قبل وہاں انتظامات کا جائزہ لیا۔