مسجد شاہی کے باہر ایک گدا گر بھیک مانگ رہا ہے کہ ایک انگریز افسر آیا اس نے اندر جانا تھا تو گدا گر نے اس کے سامنے ہاتھ پھیلایا..اس انگریز نے بٹوا نکالا اور کچھ پیسے اس کی ہتھیلی پے رکھے.اور دوبارہ بٹوا جیب میں ڈالنے لگا بٹوا جیب سے پھسل گیا اور نیچے زمین پر گر گیا گدا گر نے وہ بٹوا پکڑ لیا خیال تھا کہ وہ واپس پلٹے گا تو میں اس کو یہ بٹوا دے دوں گا.لیکن واپسی پے وہ انگریز کسی اور دروازے سے نکل گیا
یا اسی دروازے سے نکلا لیکن اسے پتہ نہیں چلا.تو وہ بٹوا وہ گدا گر اپنے گھر لے گیا..ایک سال گزرا تو دوبارہ وہ انگریز اس شاہی مسجد میں دورے کے لیے آیا تو اس گدا گر نے پہچان لیا کہا زرا رکنا مجھے تم سے کچھ کام ہے وہ جلدی سے بھاگ کر گھر گیا اور بٹوا لے آیا جس میں ہزاروں روپے تھے.انگریز نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر بٹوے کو دیکھا کبھی اس کو دیکھتا کبھی بٹوے کو دیکھتا.گدا گر نے کہا تمہیں یاد ہو نہ یاد ہو تمارا بٹوا گر گیا تھا اور میں نے سنبھال کے رکھا اس نے کہا میں یہ نہیں دیکھ رہا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم گدا گر ہو زات کے اور ایک بٹوا جس میں اتنی کرنسی ہے اتنی رقم ہے کہ تم اچھا گھر اچھا مکان اور اچھا کاروبار بنا سکتے تھے لیکن تم نے بٹوا پورا سال ہو گیا سنبھال کر رکھا..گدا گر نے کہا یہ مکان اور کاروبار کی بات نہیں ہے یہ جو بات ہے وہ غیرت اور عزت کی ہے.انگریز نے کہا کیا بات ہے.گدا گر نے کہا تو عیسائی ہے اور میں نوکر ہوں رسول اللہ کا اور کل قیامت کے دن اگر تیرے نبی نے میرے نبی سے کہہ دیا کہ میرے امتی کا بٹوا گرا تھا اور تیرے امتی نے اُٹھا لیا تو پھر میرا نبی تو شرم سار ہو گا.میں گدا گر ضرور ہوں بے غیرت نہیں ہوں.آپ خود دیکھ لیں میں نے یہ کوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یا عثمان غنی رضی اللہ عنہ یا عمر بن عبدالعزیز کے دور کی نہیں بلکہ غلامی کے دور کی بات کر رہا ہوں جب مسلمان انگریز کا غلام تھا.آج کے شاہوں کے وزیروں کے قصے چھیڑ دوں تو سر شرم سے جھک جائے اور وہ غلامی کے دور میں اپنی محبت کو بلند کر گیا.کل ایک گدا گر بھی حضور کی آبرو کا رکھوالا تھا..آج کے شاہوں کو بھی اپنی خبر نہیں….ذرا سوچیے!