حضرت مغیرہ بن شعبہؓ فرماتے ہیں جن دنوں حضرت عثمانؓ گھر میں محصور تھے میں ان کی خدمت میں گیا اور میں نے ان سے کہا آپ تمام لوگوں کے امام ہیں۔ اور یہ مصیبت جو آپؓ پر آئی ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ میں آپؓ کے سامنے تین تجویزیں پیش کرتا ہوں
ان میں سے آپ جونسی چاہیں اختیار فرمالیں یا تو آپؓ گھر سے باہر آ کر ان باغیوں سے جنگ کریں کیونکہ آپؓ کے ساتھ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اور بہت زیادہ قوت ہے۔ اور پھر آپؓ حق پر ہیں اور یہ باغی لوگ باطل پر ہیں یا آپؓ اپنے اس گھر سے باہر نکلنے کے لیے پیچھے کی طرف ایک نیا دروازہ کھول لیں کیونکہ پرانے دروازے پر تو یہ باغی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور اس نئے دروازے سے (چپکے سے) باہر نکل کر اپنی سواری پر بیٹھ کر مکہ چلے جائیں۔ کیونکہ یہ باغی لوگ مکہ میں آپؓ کا خون بہانا حلال نہیں سمجھیں گے۔ یا پھر آپ ملک شام چلے جائیں وہاں شام والے بھی ہیں اور حضرت معاویہؓ بھی ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے (ایک بھی تجویز قبول نہ فرمائی اور) فرمایا میں گھر سے باہر نکل کر ان باغیوں سے جنگ کروں یہ نہیں ہوسکتا۔ میں نہیں چاہتا کہ حضورؐ کے بعد آپؐ کی امت میں سب سے پہلے (مسلمانوں کا) خون بہانے والامیں بنوں باقی رہی تجویز کہ میں مکہ چلا جاؤں۔ وہاں یہ باغی میرا خون بہانا حلال نہیں سمجھیں گے تو میں اسے بھی اختیار نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے حضورؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قریش کا ایک آدمی مکہ میں بے دینی کے پھیلنے کا ذریعہ بنے گا۔ اس لیے اس پر ساری دنیا کا آدھا عذاب ہو گا میں نہیں چاہتا کہ میں وہ آدمی بنوں۔ اور تیسری تجویز کہ میں ملک شام چلاجاؤں وہاں شام والے بھی ہیں اور حضرت معاویہؓ بھی ہیں سو میں اپنے دارِ ہجرت (مدینہ منورہ) اور حضورؐ کے پڑوس کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔