خلیفہ رسولﷺ! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں صف ماتم بچھ گئی اور مدینہ کے درو دیوار پر لرزہ طاری ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وفات کی خبر ملی تو فوراً انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے مکان سے باہر تشریف لائے اور فرمایا ’’یعنی آج خلافت نبوت کا انقطاع ہو گیا‘‘
پھر دوڑتے ہوئے آئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہو کر یہ فرمایا اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اللہ تم پر رحم رے۔ تم سب سے پہلے اسلام لائے، تم سب سے زیادہ مخلص مسلمان تھے، تمہارا یقین سب سے زیادہ مضبوط تھا، تم سب سے زیادہ خوف خدا رکھنے والے تھے، سب سے زیادہ باعظمت تھے، صحبت اور منقبت میں سب سے افضل تھے، مرتبہ کے اعتبار سے سب سے برتر تھے، سیرت و عادت میںآنحضرتﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کیلئے رحم دل باپ تھے۔ جب کہ وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کی طرح تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوب پیش قدمی دکھائی اور اپنے بعد میںآنے والوں کو تھکا دیا، پس ہم سب اللہ کے لئے ہیں، اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ہم اللہ کی قضاء پر راضی ہیں، ہم نے معاملہ، اللہ کے سپرد کر دیا ہے، رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات جیسا کوئی حادثہ مسلمانوں پر کبھی نازل نہیں ہوا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، دین کی عزت اور قلعہ کی حیثیت کے حامل تھے، پس اللہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے نبیﷺ سے ملا دے اور ہم کو تمہارے بعد تمہارے اجر سے محروم اور بے راہ نہ کرے‘‘۔جب تک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تعزیتی خطاب فرماتے رہے سب لوگ خاموش رہے لیکن جونہی خطاب ختم ہوا سب بے تحاشا روئے اور سب نے بیک زبان ہو کر کہا اے ابن عم رسولﷺ! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سچ فرمایا۔