حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ کا ایک عمومی خط جس میں عمالِ سلطنت کو تحریر فرماتے ہیں : “اما بعد بیشک یہ ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد فرمائی ہے اگر میں نے اس کو قبول کیا ہے کہ اس سے میرا مقصد کھانا، لباس، سواری یا شادیاں یا جمع اموال ہوتا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے پہلے ہی یہ چیزیں اتنی دے رکھی تھیں۔
جو مشکل سے لوگوں کو ملا کرتی ہیں، لیکن میں نے اس ذمہ داری کو بہت ڈرتے ڈرتے قبول کیا ہے۔ مجھے اس کا بخوبی احساس ہے کہ یہ عظیم الشان ذمہ داری ہے۔ اس کی باز پرس بڑی سخت ہے۔ جس وقت فریق اور مدعی قیامت کے دن جمع ہوں گے تو اس کے معاملہ میں بڑی سخت جرح ہو گی۔ ہاں اگر اللہ تعالٰی معاف فرما دے اور نظر انداز فرما دے اور رحم فرمائے تو الگ بات ہے۔ میں نے تم کو حکومت کا جو کام سپرد کیا ہے اور جو اختیارات تفویض کئے ہیں، ان میں سے تم کو احتیاط اور خدا کے خوف کی ہدایت کرتا ہوں، ذمہ داریوں کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کے اتباع اور اس کے نواہی سے اجتناب کی تاکید کرتا ہوں۔ جو باتیں اس کے خلاف ہوں ان کی طرف بالکل توجہ کی ضرورت نہیں۔ تمہاری نظر اپنے اوپر اور اپنے عمل پر رہے اور ان چیزوں کی طرف ہو جو تمہارے رب تک پہنچائیں اور جو تم اپنے اور اپنی رعیت کے درمیان کرتے ہو، وہ تمہارے پیش نظر رہے اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ حفظ و نجات اسی میں منحصر ہے کہ اللہ تعالٰی کی اطاعت میں منزل مقصود تک پہنچ جاؤ۔ اس یوم موعود کے لئے وہی چیز تیار رکھو، جو خدا کے ہاں کام آنے والی ہو اور دوسرے کے واقعات میں تم نے ایسی عبرتیں دیکھی ہیں، جن کے برابر ہمارا وعظ و نصیحت مؤثر نہیں ہو سکی۔ والسلام”