کوثر نیازی مرحوم مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کے مزاج کے متعلق لکھتے ہیں ’’بات ان بزرگوں کے اخباری بیانات سے شروع ہوئی تھی۔ اکثر بیانات تو اسلامی دستور کے موضوع پر ان علماء حضرات کے مشترک ہی ہوا کرتے تھے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ بیان کا طرز تحریر حضرت کاندھلویؒ کو کچھ زیادہ ہی سیاسی محسوس ہوا تو انہوں نے اپنے قلم سے وہیں ایک جداگانہ بیان قلمبند کر کے میرے حوالے کر دیا۔
اس بیان کی بھی ایک اپنی شان ہوتی تھی۔ شروع میں عربی زبان کے اندر پورا خطبہ مسنونہ، اس کے بعد ’’امابعد‘‘ لکھ کر آیات قرآنی اور احادیث نبویﷺ سے استدلال و اتشہاد کرتے ہوئے اصل حرف مطلب لکھتے جو صرف اور صرف حکمرانوں کو خوف آخرت دلاتے ہوئے اسلامی آئین کے برکات و فضائل پر مشتمل ہوتا۔ میں عرض کرتا ’’حضرت یہ تو اخباری بیان نہ ہوا، مضمون ہو گیا اسے کون چھاپے گا، تھوڑا اسے سیاسی رنگ بھی دینا پڑے گا‘‘ تو ہمیشہ یہی جواب دیتے مولوی صاحب! ہم تو سیاست و یاست جانتے نہیں ہم تو صرف قرآن و حدیث کی بات کریں گے، کوئی چھپتا ہے چھاپے نہیں چھاپتا ہے نہ چھاپے، ہمیں اس سے کیا غرض‘‘ اور میں لاجواب ہو کر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا۔ مولانا کی درویشی کا عالم یہ تھا کہ اخبار نہیں پڑھتے تھے، نہ ہی کوئی اخبار گھر پر آتا، میں جب بھی حاضر ہوتا پوچھتے ’’مولوی صاحب نئی خبر کیا ہے‘‘ میں جستہ جستہ تفصیل عرض کر دیتا۔ ایک دن میں نے عرض کیا ’’حضرت! اگر اجازت ہو تو میں اخبار بھجوا دیا کروں، آپ تازہ ترین حالات سے باخبر رہیں گے، فرمانے لگے ’’مولوی صاحب! ہم اخبار کیسے پڑھیں ایک تو اس میں فلمی اشتہار ہوتے ہیں، دوسرے تصویریں، تیسرے خبریں ہوتی ہیں مگر راوی نامعلوم! خدا جانے یہ ثقہ ہے بھی کہ نہیں ہمیں تو بس اسی طرح خبزیں تم ہی بتا دیا کرو‘‘
مجھے یاد ہے ایک زمانہ میں اپنے وقت کے صاحب جبروت حاکم امیر محمد خان نواب آف کالا باغ نے جو اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر تھے آپ سے ملنے کی خواہش کی جو شخص پیغام لایا تھا اس سے کہا ’’مولوی صاحب میں تو ان کے پاس جانے کا نہیں کہ حکام کے پاس جانا میرے مسلک کیخلاف ہے وہ یہاںآنا چاہیں تو شوق سے آئیں مگر شرط یہ ہے کہ اپنے کمرہ میں کرسی نہیں رکھنے دوں گا،
بیٹھیں گے تو وہ بھی میرے ساتھ دری پر بیٹھیں گے‘‘۔ اب اس تفصیل کو جانے دیجئے کہ آگے کیا ہوا؟ مختصر یہ کہ ملاقات ہوئی اور اس پر تعریف نواب کالا باغ کی بھی ہونی چاہئے کہ انہوں نے شرط منظور کی اور ایک بوریا نشین فقیر کی کتابوں سے اٹے ہوئے کمرے میں نیچے بیٹھ کر ان سے بات چیت کی۔ سچ ہے رسول پاکﷺ کے غلاموں کی بات ہی کچھ اور ہے۔