میری عادت تھی کہ جب بھی گھر سے باہر کہیں جاتا تھا تو امّی کو بتائے بغیر چلا جاتا تھا۔ تقریباً بیس دن پہلے کی بات ہے کہ ایک مولانا کے بیان میں سُنا کہ بازار یا دفتر یا کاروبار وغیرہ پر جائیں تو تب بھی ماں کو لازمی بتا کر جائیں کیونکہ ماں کی عادت ہوتی ہے دعا دینے کی۔۔ تو میں نے بھی اپنا معمول بنا لِیا امّی کو بتا کے جانے کا، چاہے گلی کی نُکڑ پر موجود کریانہ سٹور پر جانا ہوتا پھر بھی۔
آج صبح فجر کے بعد ایک جگہ گھر سے دُور چہل قدمی کے لیئے بھی میں امّی کو بتا کے گھر سے نکلا اور بائیک پر گیا تو جاتے وقت امّی نے حسبِ معمول کہا اللّٰہ خیر خیریت سے لے جائے اور لے آئے۔ تو میں جب واپس آ رہا تھا تب ساڑھے سات بجنے والے تھے آفس کا وقت بھی ہو رہا تھا اِس لیئے بائیک تیز دوڑا رہا تھا اسّی کی رفتار میں تھا اور میرے آگے یونیورسٹی کی بس تھی وہ بھی خالی سڑک کی وجہ سے ساٹھ ستّر کی رفتار میں تھی اور بالکل سڑک کے دائیں جانب فٹ پاتھ کے ساتھ چل رہی تھی تو میں نے اُسے اپنی دائیں جانب یعنی اُسکی بائیں جانب سے اوورٹیک کرنے کا سوچا اور اوورٹیک کرتے ھُوئے ابھی میں بس کے درمیان میں ہی پہنچا تھا کہ اُس اللّٰہ کے بندے نے اُسی رفتار سے بس پوری بائیں جانب یعنی میری طرف گُھما دی اور یہ جان کر آپ سب کو حیرت ہو گی کہ بس مجھ سے زور سے ٹکرا گئی اور میرا موٹر سائیکل ایک طرف کو پورا جُھول گیا لیکن فوراً ہی سیدھا ہو گیا۔ بس والے نے فوراً بریک لگائی اور میں نے بھی بائیک روک دی۔ کنڈیکٹر بس سے نیچے اُترا اور بھاگا بھاگا میری جانب آیا، ہم دونوں ایک دوسرے کو حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھنے لگے کیونکہ معجزہ ہی ایسا ھُوا تھا۔ کنڈیکٹر کہتا آپ بچ کیسے گئے کیا آپ نے بائیک کی سائیڈوں پر بھی ایک ایک ٹائر لگا رکھا ہے؟ میں نے کہا لگتا ہے مجھے میری ماں کی صبح والی دعا میرے بائیک کا تیسرا ٹائر بن گئی اور اُس نے مجھے بچا لِیا۔