ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ ذرا بتائیے اسٹیج کا عظیم ڈرامہ کون سا ہے۔ ایک بار جب نیو یارک کے مشہور نقادوں نے دنیا کے دس مشہور ڈراموں کے متعلق خفیہ رائے شماری کی تو انہوں نے متفقہ طور پر ’’ہیملٹ‘‘ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ یہ ڈرامہ آج سے تین سو سال پہلے لکھاگیاتھا۔ انہوں نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ دنیا کا دوسرا سب سے عظیم ڈرامہ ’’میکبتھ کنگ لیر‘‘ یا ’’مرچنٹ آف وینس‘‘ نہیں بلکہ رین (بارش) ہے۔
جی ہاں ’’رین‘‘ جنوبی سمندروں میں جنس اور مذہب کی باہمی کشمکش کی داستان۔ دنیا کا مشہور ڈرامہ جو سمرسٹ ماہم کی ایک کہانی سے ترتیب دیا گیا ہے۔ماہم نے ’’رین‘‘ سے چالیس ہزار پونڈ کمائے۔ حالانکہ اس نے اس کے لکھنے میں پانچ منٹ بھی صرف نہیں کیے تھے۔دراصل ہوا یوں کہ اس نے ایک کہانی لکھی جس کا نام ’’سٹیڈی تھامسن‘‘ تھا۔ اس کے نزدیک یہ کوئی اتنی اچھی کہانی نہ تھی لیکن ایک رات جان کولٹن اس کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ اور وہ سونے سے پہلے یونہی وقت گزارنے کے لیے کچھ پڑھنا چاہتا تھا۔ ماہم نے اسے ’’سٹیڈی تھامسن‘‘ کا مسودہ پڑھنے کے لیے دے دیا۔کولٹن یہ کہانی پڑھ کر دنگ رہ گیا۔ وہ چارپائی سے اٹھ کر بند کمرے میں ٹہلنے لگا۔ اسی رات اس نے اپنے تصورات میں اس کہانی کو ڈرامے کی صورت میں دیکھا۔ ایک ایسا ڈرامہ جو لافانی بننے والا تھا۔دوسری صبح وہ بھاگا بھاگا سمرسٹ ماہم کے پاس گیا۔ اس نے سمرسٹ ماہم کو بتایا کہ اس کہانی میں ایک بہت بڑا ڈرامہ موجود ہے۔ میں رات بھر اس کے متعلق سوچتا رہا۔ قسم لے لو۔ رات بھر نہیں سویا۔لیکن سمرسٹ ماہم پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ڈرامہ؟ اس نے اپنے مخصوص برطانوی لہجے میں تعجب سے پوچھا۔ ’’ہاں ہو سکتا ہے۔‘‘ اس سے عام قسم کا ڈرامہ بن جائے۔ شاید چار ہفتے چل بھی جائے۔ لیکن ہمیں اس کے لیے کوئی تردد کرنے کی ضرورت نہیں۔
چھوڑو یہ قصہ اور وہ ڈرامہ۔ جس کے متعلق وہ کوئی تردد نہ کرنا چاہتا تھا۔ اسے چالیس ہزار پونڈ لانے کا ذریعہ بنا۔جب ڈرامہ لکھ لیاگیا۔ تو اکثر پروڈیوسروں نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔ انہیں یقین تھا کہ یہ ناکام ہو جائے گا۔ پھر سیم ہیرس نے ڈرامہ لے لیا۔ وہ اس میں ایک نوجوان ایکٹرس جینی سے کام کرانا چاہتا تھا۔ لیکن پیسے لگانے والے ایجنٹ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ کسی مشہور ایکٹرس کو لیاجائے۔ آخر تگ و دو کے بعد جینی ایگلز کو کام مل گیا۔
اس نے سٹیڈی تھامسن کا کردار اتنی خوبی سے ادا کیا کہ براڈوے والے حیران رہ گئے۔ اس نے مسلسل چار سو پندرہ بار یہی کردار ادا کیا اور ہر بار ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔سمرسٹ ماہم نے کئی مشہور کتابیں لکھیں جیسے ’’آف ہیومن بانڈج‘‘ دی مون اینڈ سکس پینس اور ’’دی پینٹڈ ویل‘‘ وہ کئی اور مشہور ڈراموں کا بھی مصنف تھا۔ لیکن اس نے اپنا سب سے مشہور ڈرامہ خود نہیں لکھا۔لوگ اب بھی اس کی ذہانت کا دم بھرتے ہیں لیکن جب اس نے لکھنا شروع کیا تو گیارہ سال تک مالی پریشانیوں کا سامنا کرتا رہا۔
ذرا اندازہ کریں یہ شخص جس نے بعد میں ایک مصنف کی حیثیت سے 200000 پونڈ کمائے۔ پہلے گیارہ برس میں کہانیوں اور ناولوں کے ذریعے صرف سو پونڈ سالانہ کماتاتھا۔ بعض اوقات اسے بھوکا بھی رہنا پڑتا۔ اس نے کوشش کی کہ اسے اخبار میں نوکری مل جائے، لیکن ناکام رہا۔ سمرسٹ ماہم نے مجھے بتایا کہ میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں لکھتا رہوں۔ کیونکہ میں ملازمت نہیں کر سکتا تھا۔اس کے دوست کہا کرتے تھے کہ وہ حماقت کر رہا ہے۔ وہ میڈیکل کالج کا گریجویٹ تھا۔
اس لیے اس کے دوست زور دیتے کہ وہ افسانہ نویسی چھوڑ کر ڈاکٹری کی دکان کھول لے۔لیکن وہ تہیہ کر چکا تھا کہ انگریزی ادب کی تاریخ میں اپنا نام ضرور چھوڑ جائے گا اور دنیا کا کوئی شخص اسے اس ارادے سے باز نہ رکھ سکتا تھا۔’’بیلیواٹ ارناٹ‘‘ (یقین کریں یا نہ کریں) کے مشہور اداکار باب ایپلی نے ایک بار مجھے کہا تھا کوئی شخص دس سال محنت کرے اور کوئی اس کا پرسان حال نہ ہو پھر یکایک وہ پانچ منٹ میں مشہور ہو جائے۔۔۔ باب ایپلی اور سمرسٹ ماہم دونوں کے ساتھ یہی ہوا تھا۔
آئیے میں اب آپ کو سمرسٹ ماہم کی پہلی کامیابی کی کہانی سناؤں۔لندن میں کسی شخص کا لکھا ہوا ڈراہ بری طرح ناکام ہوا اور تھیٹر کا منیجر کسی اور ڈرامے کی تلاش میں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کوئی اعلیٰ درجے کا ڈرامہ مل جائے۔ اس کی کوشش تو یہ تھی کہ کوئی درمیانے درجے کا ڈرامہ ہی ہاتھ آ جائے تاکہ کوئی بہترین ساکھیل ملنے تک تھیٹر تو چلتا رہے۔ چنانچہ اس نے میز کی درازوں میں ہاتھ مارا اور سمرسٹ ماہم کا لکھا ہوا ایک ڈرامہ باہر نکالا۔ اس کا نام ’’لیڈی فریڈرک‘‘ تھا۔
یہ ڈرامہ کوئی ایک سال سے اس کے میز کی دراز میں پڑا ہوا تھا۔ وہ اسے پڑھ چکا تھا اور جانتا تھا کہ یہ کوئی ایسا اچھا ڈرامہ نہیں ہے۔ تاہم اسے امید تھی کہ شاید یہ دو چار ہفتے چل جائے۔ اس نے یہ ڈرامہ اسٹیج کیا اور اس طرح ایک معجزہ رونما ہو گیا۔ ’’لیڈی فریڈرک بے حد کامیاب ہوا۔‘‘ آسکر وائلڈ کے لکھے ہوئے مکالموں کے بعد کسی نے اب تک لندن والوں کو اس قدر محظوظ نہیں کیاتھا۔اس کے فوراً بعد لندن کے ہر تھیٹر کا منیجر سمرسٹ ماہم کے گھر کے چکر کاٹنے لگا۔
اس نے اپنی الماری سے اپنے پرانے ڈرامے نکالے اور انہیں تھما دیے۔ چند ہفتوں بعد تین مشہور تھیٹروں میں بیک وقت اس کے ڈرامے انتہائی کامیابی کے ساتھ چل رہے تھے۔رائلٹی کی صورت میں سمرسٹ ماہم کے گھر دولت کا انبار لگ گیا۔ ناشرین ہر وقت اس سے نئی تصنیف کا تقاضا کرنے لگے۔ ہر تقریب میں اسے خاص مہمان کی حیثیت سے بلایاجانے لگا اور گیارہ برس کی گم نامی کے بعد سمرسٹ ماہم نے دیکھا کہ لندن کی بڑی بڑی تقریبوں میں اس کی صحت کے جام نوش کیے جاتے ہیں۔
سمرسٹ ماہم نے مجھے بتایا کہ وہ دوپہر ایک بجے کے بعد کبھی کچھ نہیں لکھتا۔ وہ کہنے لگا، دوپہر کو میرا ذہن بالکل تھک جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ پائپ پیتا ہے اور کوئی چیز لکھنے سے ایک گھنٹہ پہلے فلسفے کی کتابوں کا ضرور مطالعہ کرتا ہے۔ 1940 میں جب فرانس پر یلغار ہوئی تو بھاگ کر انگلستان آ گیا۔ لیکن جنگ کے بعد واپس فرانس چلا گیا۔
اس نے مجھے بتایا کہ وہ ضیعف الاعتقاد نہیں لیکن اس کے باوجود اس نے اپنی ہر کتاب کی جلد پر ’’منحوس آنکھ‘‘ کا نشان چھپوا رکھا ہے۔ اس کے گھر کی پلیٹوں اور تاش کے پتوں پر بھی یہی نشان موجود ہے۔ اس نے اپنے کمرے کی انگیٹھی کے اوپر دپوار پر بھی یہی نشان کندہ کر رکھا ہے اور صدر دروازے کی پیشانی پر بھی یہی نشان موجود ہے لیکن جب میں نے پوچھا کہ وہ سچ مچ اس نشان پر یقین رکھتا ہے تو وہ فقط مسکرا پڑا۔