بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

اللہ تعالیٰ پر ایمان

datetime 10  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک مسلمان کے لئے سب سے بڑی تسکین و راحت اللہ تعالیٰ پرایمان ہے۔ یہی ایمان ہے جو بندہ کو بہار و خزاں ہر قسم کے حالات میں مطمئن رکھتاہے۔ ایک مسلمان کو ایمان کی برکت سے زندگی میں قدم قدم پر جو سکون و راحت نصیب ہوتا ہے اس کا اندازہ خدا بیزار اقوام کا کوئی فرد کر ہی نہیں سکتا ذیل میں ایمان سے متعلق چند اہم باتیں درج کی جاتی ہیں۔

ایمان کامل کی چار علامتیں۔شیخ الاسلام مولانا مفتیح محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں۔ایک حدیث شریف میں جناب رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:من اعطیٰ للہ و منع للہ، واحب للہ، وابغض للہ فقد استکمل ایمانہ۔یعنی جو شخص کسی کو کچھ دے تو اللہ کے لیے دے اور اگر کسی کو کسی چیزسے روکے اور منع کرے تو اللہ کے لیے منع کرے اور اگر کسی سے محبت کرے تو اللہ کے لیے کرے اور اگر کسی سے بغض رکھے تو اللہ کے لیے رکھے تو اس کا ایمان کامل ہے، حضور اقدسؐ نے ایسے شخص کے ایمان کے کامل ہونے کی گواہی دی ہے۔پہلی علامت: اس حدیث میں حضورؐ نے چار چیزوں کو ایمان کی کامل علامت بتائیں، پہلی علامت یہ ہے کہ من اعطی للہ جب دے تو اللہ کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نیکی کے موقع پر کچھ خرچ کر رہا ہو تو وہ خرچ کرنا اللہ کے لیے ہو، آدمی اپنی ضرویات میں بھی خرچ کرتا ہے، اہل و عیال پر بھی خرچ کرتا ہے، صدقہ خیرات بھی کرتاہے، ان تمام مواقع پر خرچ کرتے وقت اللہ کو راضی کرنے کی نیت ہو صدقہ خیرات میں بھی آدمی یہ نیت کرے کہ یہ صدقہ میں اس لیے دے رہا ہوں تاکہ اللہ راضی ہو جائیں اور اپنے فضل و کرم سے اس کا ثواب مجھے عطا فرمائیں اور صدقہ دینے سے احسان جتلانا یا نام و نمود اور دکھاوا مقصود نہ ہو تواس وقت یہ صدقہ دینا اللہ کے لیے ہو گا۔

دوسری علامت: دوسری علامت یہ ہے کہ منع للہ یعنی اگر روکے تو اللہ کے لیے روکے مثلاً کسی جگہ پر کسی موقع پر پیسہ خرچ کرنے سے بچایا وہ بچانا بھی اللہ کے لیے ہو اس لیے کہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ فضول خرچی مت کرو تو اب فضول خرچی سے بچنے کے لیے میں اپنا پیسہ بچا رہا ہوں، یہ روکنا بھی اللہ کے لیے ہو گیا یہ بھی ایمان کی علامت ہے۔

تیسری علامت: تیسری علامت یہ ہے کہ واحب للہ یعنی اگر کسی سے محبت کرے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے لیے کرے مثلاً کسی اللہ والے سے جو محبت ہو جاتی ہے تو یہ محبت پیسہ کمانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ان سے محبت اس لیے ہوتی ہے کہ ان سے تعلق رکھیں گے تو ہمارا دینی فائدہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ راضی ہو جائیں گے یہ محبت صرف اللہ کے لیے ہے یہ بھی ایمان کی علامت ہے۔

چوتھی علامت: چوتھی علامت یہ ہے کہ وابغض للہ یعنی بغض اور غصہ بھی اللہ کے لیے ہو جس آدمی پر غصہ ہے یاجس آدمی سے بغض ہے وہ اس کی ذات سے نہ ہو بلکہ اس کے کسی برے عمل سے ہو یا اس کی کسی ایسی بات سے ہو جو مالک حقیقی کی ناراضگی کا سبب بنے تو یہ غصہ اور ناراضگی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوا۔چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پہچان۔معرفت کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:

(1) صحبت اہل اللہ (2) کثرت ذکر اللہ (3) تفکر فی خلق اللہ۔صحبت اہل اللہ: کو مقدم اس لیے رکھا جاتاہے کہ اللہ والوں کی صحبت ہی سے اللہ تعالیٰ کی یاد کا شوق پیدا ہوتا ہے ان کی صورت دیکھ کر اللہ یاد آ جاتے ہیں ان کی نورانی گفتگو سے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور محبت سے ذکر کی توفیق ہوتی ہے۔فقر خواہی آں بصحبت قائم است۔۔نہ زبانت کاری آید نہ دست۔یعنی حق تعالیٰ کاراستہ صحبت ہی سے طے ہوتاہے نہ محض زبان کام آتی ہے نہ ہاتھ کام آتا ہے

اسی واسطے حق تعالیٰ جل شانہ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ یَایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہ ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو‘‘ اب سوال پیدا ہوا کہ ڈریں کیسے ڈرنے کاطریقہ کیاہے اس کا جواب بھی حق تعالیٰ نے اسی آیت میں آگے دے دیا کہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْن کہ سچوں کے ساتھ رہ پڑو جن کا ظاہر اور باطن دونوں خدا کے خوف سے سچے ہوں ان کی صحبت کی برکت سے ان کا صدق فی الامال اور ان کا صدق فی القال تمہارے اندر بھی آ جائیگا،

یعنی ان کا اندر باہر ایک ہو جو کہتے ہوں اس پر عمل پیرا ہوں۔ کس طرح فریاد کرتے ہیں بتا دو قاعدہ۔۔اے اسیران قفس میں نو گرفتاروں میں ہوں۔تو حق تعالیٰ نے کیسا پیارا قانون بتا دیا کہ اللہ والوں کے ساتھ رہو خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑ لیتا ہے اللہ والوں کے ساتھ رہنے اور ان سے تعلق اور رابطہ رکھنے سے اللہ تعالیٰ سے تعلق پہلے سے زیادہ ہو جاتا ہے۔

کثرت ذکر اللہ: دوسری چیز ہے یعنی اللہ تعالیٰ جل شانہ کو بہت یاد کرنااللہ تعالیٰ کے ذکر کو تفکر فی الخلق (یعنی اللہ کی مخلوق میں غور و فکر) کے انوار سے نفس کے ظلماتی پردے ہٹتے چلے جاتے ہیں ذکر کے انوار جب دل میں آتے ہیں تو دل کی تاریکیاں انوارات سے بدل جاتی ہیں، پہلے جب دل تاریک تھا تو افکار (سوچیں) بھی تاریک ہوتے تھے اب نورانی دل میں افکار بھی نورانی پیدا ہوتے ہیں،

ذکر سے فکر کا جمود (بجھنا) دور ہو جاتاہے، چوتھے پارہ میں حق تعالیٰ نے حضرات صحابہؓ کی محبت کاملہ اور عبدیت کاملہ کا ذکر کیاہے وہاں بھی پہلے یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ ذکر فرمایا کہ وہ لیٹے بیٹھے پھرتے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں پھر بعد میں فکر ارشاد فرمایا کہ ویتفکرون فی خلق السموات والارض کہ وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ ’’اے ہمارے پروردگار! یہ آسمان بے ستون آسمان میں چاند اور سورج اور اتنے بے شمار ستارے اور زمین کے اتنے بے شمار ذرات کااکٹھاکر دینا آپ ہی کی قدرت کاملہ کی صفت گری ہے۔‘‘

بہرحال کثرت ذکر کے انوارات سے ان کی سمجھ ایسی نورانی ہو گئی جس سے اپنی غلامی اور بندگی کا اور حق تعالیٰ کی عظمت شان کا استحضار پختہ ہو گیا یہی وجہ ہے کہ عارفین باوجود کثرت ذکر و فکر کے عجب اور خودبینی میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ ڈرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’یا رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا‘‘ کثرت ذکر سے طالب کے اندر جو ن ور پیدا ہوتے ہیں وہ شیخ کے انوار و برکت کو جذب کر لیتے ہیں یعنی نور کھینچنے کی صلاحیت ذکر کے اہتمام سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

تفکر فی خلق اللہ: (1) صحبت اللہ سے کثرت ذکر اللہ کی توفیق ہوتی ہے۔ (2) اور کثرت ذکر اللہ کی برکت سے فکر حرکت میں آتی ہے۔ (3) پھر ذاکر حق تعالیٰ کی مصنوعات اور مخلوقات میں غور کرتاہے اور جہان کا ہر ذرہ ہر پتہ اس کے لیے معرفت کا دفتر بن جاتاہے۔ ذکر سے زیادہ فکر سے قرب بڑھتا ہے مگر فکر میں نورانیت ذکر ہی سے آتی ہے، حدیث میں ہے کہ ’’فکر کا اجر ذکر سے دس درجہ زیادہ ملتا ہے‘‘

اس کی تائید سورہ قمر کی آخری آیات سے بھی ہوتی ہے کہ ’’بے شک متقین بندے باغوں میں ہوں گے یا عمدہ مقام میں قدرت والے بادشاہ کے پاس‘‘ بیان القرآن میں ہے کہ جنت کے ساتھ قرب بھی نصیب ہو گا، جب تقویٰ کی یہ برکات ہیں تو تقویٰ (ڈر) کیسے پیدا ہو، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فکر ہی سے پیدا ہوتا ہے، اس کی تائید سورہ نازعات کی آیت سے بھی ہوتی ہے، حق تعالیٰ ہمیں ان تینوں چیزوں پر عمل کی توفیق دے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…