اسلام آباد(آئی این پی) سپریم کورٹ کے حکم پر کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ تشدد کیس میں ڈی آئی جی اسلام آباد کاشف عالم کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیدی گئی جو کیس کی تفتیش سمیت بچی اور اس کے والدین کو ٹریس کر کے سپریم کورٹ میں پیش کرے گی ، وزارت داخلہ نے آئی جی اسلام آبادکو چوبیس گھنٹوں میں بچی کا پتہ چلا کر اسے اپنی تحویل میں لینے کاحکم دیدیا جس پر پولیس نے بچی اور اس کے والدین کی تلاش کیلئے چھاپے مارنے شروع کر دیے جبکہ موبائل فون کی لوکیشن سمیت دیگر جدید آلات سے بھی بچی کا پتہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، ایڈیشنل سیشن جج کے ساتھ صلح کرنے والا محمد اعظم ہی بچی کا اصل والد ہے ، پولیس ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ اور وزارت داخلہ کی ہدایت پر طیبہ تشدد کیس میں اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے کر کیس کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے ، تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ڈی آئی جی کاشف عالم کر رہے ہیں جبکہ اس ٹیم میں ایس پی انویسٹیگیشن، ایس پی صدر ، ایک ڈی ایس پی ، ایک اے ایس پی ، تھانہ آئی نائن کے ایس ایچ او اور مدعی مقدمہ اے ایس آئی سمیت ایک انسپکٹر بھی شامل ہے ، تحقیقاتی ٹیم نے پہلے اجلاس میں کیس سے متعلق تمام ریکارڈ اور صلح نامے کا جائزہ لیا ،یہ ٹیم بچی کی بازیابی کے لئے بھی متحرک ہو گئی ہے اور ایس پی انویسٹیگیشن کی سربراہی میں بچی کی بازیابی کے لئے کمیٹی بنا دی ہے جو موبائل فون کے ڈیٹا سے بچی کی تلاش سمیت بچی کے رشتہ داروں ،ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان اور ان کے رشتہ داروں کے گھروں پر چھاپے مارے گی ، دوسری طرف وزارت داخلہ نے آئی جی اسلام آباد کو چوبیس گھنٹوں میں بچی اور اس کے والدین کا سراغ لگا کر انہیں اپنی تحویل میں لینے کی ہدایت کی ہے تاکہ بچی کو سپریم کورٹ اور میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش کیا جا سکے اور بچی کو علاج معالجے سمیت تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکے ،دوسری طرف پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بچی کو شیلٹر ھوم سے محمد اعظم نامی شخص کے حوالے کیا گیا تھا اور یہی بچی کا اصل والد ہے اور اسی شخص نے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کے ساتھ صلح بھی کی تھی ۔انسانی حقوق کے وزیر کامران مائیکل کا کہنا ہے کہ بچی شیلٹر ھوم سے محمد اعظم نامی شخص کے حوالے کی گئی اور یہ بچی کا والد ہے ۔