دبئی(این این آئی)دبئی میں حسب سابق اس مرتبہ بھی نئے سال کی آمد پر ریکارڈ آتش بازی کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور جونہی 31 دسمبر کی رات مقامی وقت کے مطابق بارہ بجیں گے، پٹاخوں اور کریکروں کے دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق دبئی میں 2016ء کے اختتام اور 2017ء کے آغاز کے موقع پر دنیا کی سب سے طویل عمارت برج خلیفہ اور سب سے بڑے مال دبئی مال سمیت 160 مخصوص مقامات پر رنگا رنگ آتش بازی کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور ان مقامات کو برقی قمقموں سے سجایا جارہا ہے۔
دبئی کے ساڑھے چھے لاکھ سے زیادہ مکینوں اور سیاحوں کی برج خلیفہ اور اس کے نواحی کاروباری علاقوں میں نئے سال پر آتش بازی کے رنگا رنگ مظاہرے کو دیکھنے کے لیے آمد متوقع ہے۔ان علاقوں میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جارہے ہیں اور سکیورٹی کے چار ہزار اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظبی میں بھی نئے سال کی آمد پر رنگا رنگ تقریبات کے انعقاد کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ برطانوی بینڈ ‘کولڈ پلے یاس آئی لینڈ میں اپنے کا مظاہرہ کرے گا۔الماریہ آئی لینڈ میں اماراتی گلوکار حسین الجاسمی اور عرب گلوکار محمد آصف اپنے فن کا جادو جگائیں گے۔شارجہ ،القصبہ اور المجاز میں بھی نئے سال کے موقع پر رنگا رنگ تقریبات منعقد کی جارہی ہیں۔گذشتہ برسوں کے دوران نئے سال کی آمد پردبئی شہر اور اس کے آس پاس کے ایک سو کلومیٹر کے علاقے میں ریکارڈ آتش بازی کی جاتی رہی ہے۔
گذشتہ سال لاکھوں کی تعداد میں کریکر اور پٹاخے چھوڑے گئے تھے۔واضح رہے کہ اس وقت دبئی کو دنیا کے سب سے طویل ٹاور ،سب سے بڑے انسانی ساختہ جزیرے اور مصروف ترین عالمی ہوائی اڈوں میں سے ایک کا مالک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔گذشتہ چند برسوں سے دبئی کی بھی آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی طرح نئے سال کے آغاز کے موقع پر آتش بازی اور دیگر تقریبات کے حوالے سے ایک پہچان بن گئی ہے،خاص طور پر 2010ء میں 828 میٹر (2716 فٹ) طویل برج خلیفہ ٹاور کے افتتاح کے بعد سے یہاں رنگا رنگ تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور دنیا بھر سے شوبز اور دوسرے شعبوں کی سرکردہ شخصیات ان میں شرکت کرتی ہیں۔دبئی فضائی ٹرانسپورٹ کا ایک اہم مرکز ہونے کے علاوہ ایک اہم عالمی تجارتی گذرگاہ اور تجارتی مرکز بن چکا ہے۔دبئی کو قدامت پسند خطے کا جدید ترین شہر قراردیا جاتا ہے۔اس شہر میں دنیا کے بڑے کاروباری ،تجارتی ،صنعتی،سائنسی اور ٹیکنیکل اداروں کے دفاتر اور ہیڈ کوارٹرز قائم ہیں اور یہاں دنیا کے قریباً دو سو ممالک کے باشندے روزگار اور کاروبار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔