نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی ایٹمی سائنسدانوں کے اس انکشاف کے عبد کہ پاکستان کے پاس 130سے 140تک ایٹمی ہتھیارہیں اوربھارت کے کئے علاقے پاکستانی میزائلوں کی زدمیں آگئےہیں ۔اس کاانکشاف ایک بھارتی ٹی وی چینل ’’این ڈی ٹی وی ‘‘کی رپورٹ کے مطابق ایک طرف پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیارزیادہ طاقتورہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جنگی طیارے جن میں ایف 16اورمیراج ہیں جن کوپاکستانی انجینئروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال اوردنیاکے خطرناک طرین میزائل کروزکوبھی ساتھ لے جانے کی صلاحیت پیداکردی ہے جس سے بھارت کے کئی علاقے اب پاکستانی میزائلوں کی زدمیں آگئے ہیں ۔جبکہ اس بھارتی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق امریکی ایٹمی سائنسدانوں نے پاکستان پرالزام بھی لگایاہے کہ پاکستان خطرناک ایٹمی
ہتھیاروں کی ساخت میں تبدیلی کرکے امریکی اصولوں کی خلاف ورزی کررہاہے ۔
امریکی سائنس دانوں نے سیٹلائٹ سے حاصل کی جانے والی تصاویر کے بغور مشاہدے کے بعد جاری کی جانے والی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ پاکستان کے پاس 130سے140جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ پاکستان نے امریکہ سے حاصل کئے جانے والے ایف16جنگی جہازوں کی ساخت میں تبدیلی لاتے ہوئے انہیں بھی جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے قابل بنا لیا ہے جبکہ فرانس سے خریدے جانے والے میراج جنگی طیاروں میں بھی تبدیلی لاتے ہوئے انہیں کروز میزائل کے استعمال کے قابل بنا لیا ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پا کستانی فضائیہ کے جوہری ہتھیار لے جانے کے قابل لڑاکا طیاروں کے ایک حصے کو کراچی کے مغرب میں
مسرور ائیر بیس پر زیر زمین رکھا گیا ہے، جہاں سخت سیکورٹی کے درمیان بہت بڑی انڈر گراؤنڈ سہولیات موجود ہیں ، زیر زمین یہ سہولیات ممکنہ طور پر ایک کمانڈ سینٹر سے منسلک ہیں ،تاہم پاکستان کا جوہری ہتھیار چلانے کا نظام کروز اور بیلسٹک میزائل چلانے والا نظام ہی ہے۔انڈین ٹی وی کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پاکستان کے 5گیریژن یونٹ اور 2ائیر بیس ایسے ہیں جہاں ایٹمی ہتھیاروں کو رکھا جاتا ہے تاہم پاکستان کی ابھرتی ہوئی جوہری ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ رکھنے کے لئے 5ائیر بیس ایسے ہیں جن کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے
ان میں آرمی گیریژن اکرو(سندھ)گجرانوالہ (پنجاب)خضدار(بلوچستان)پنوں عاقل (سندھ)اور سرگودھا ائیر بیس شامل ہیں ،بہاولپور میں چھٹاائیر بیس تعمیر ہو سکتا ہے جبکہ ڈی جی خان میں 7واں ائیر بیس بھی ہے لیکن اس ائیر بیس کا کا انفراسٹریکچر مختلف ہے جس کی وجہ سے اس کا استعمال مشکل ہے ۔ امریکی سائنس دانوں کے مطابق سیٹلائٹ سے حاصل کی جانے والی
تصاویر ایسی جوہری فعال میزائل کے لئے استعمال کئے جانے والے گاڑیوں کی موجودگی کے آثار دیتی ہیں، جن کے ذریعہ نہ صرف 100 کلو میٹر سے بھی کم فاصلے والے ہدف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ درمیانی فاصلے تک بھی، جن کے تحت بھارت کے زیادہ تر علاقے پاکستانی جوہری میزائلوں کی زَد میں آ سکتے ہیں۔بھارتی ٹی وی کے ان انکشافات کے بعد بھارتی میڈیانے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کواپنے تنقید کانشانہ بناررکھاہے اورپاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہے ۔