ہفتہ‬‮ ، 08 فروری‬‮ 2025 

حلقہ این اے 110،وہی ہوا جس کی توقع تھی،عدالت نے حکم جاری کردیا

datetime 7  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کور ٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے حلقہ این ا ے 110 کے حوالے سے انتخابی عذرداری کے مقدمہ میں نادراکی جانب سے جمع کی گئی فورنزک رپورٹ پر وضاحت کیلئے نادرا حکام اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کوطلب کرلیا۔ منگل کوچیف جسٹس انورظہیرجمالی کی سر براہی جسٹس عمرعطابندیال اورجسٹس فیصل عرب پرمشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزارکے وکیل بابر اعوان نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ نادرا نے جو پہلی رپورٹ جمع کرائی ہے اس کے مطابق میرے موکل عثمان ڈار اور خواجہ آصف کے ووٹوں کے درمیان 21 ہزار ووٹوں کا فرق تھا ٗ 29 پولنگ اسٹیشنوں کے 30ہزار ووٹ غائب ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کے دوران اس حلقہ میں ملی بھگت سے دھاندلی کی گئی ہے جس سے حلقہ کا انتخابی مواد متاثر ہوا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے کہا کہ آپ کو عدالت میں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ملی بھگت ہوئی ہے، آخر ان 29 پولنگ اسٹیشنوں کا ریکارڈ گنتی میں تو شامل کیا گیا ہوگا، اگر یہ پتا چل جائے کہ وہاں سے کون جیتا تھا تو صورتحال واضح ہو جائے گی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ مذکورہ 29 پولنگ اسٹیشنوں پر ہارنے والے امیدوار کو بھی کچھ ووٹ ضرور ملے ہوں گے جس پر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ حلقہ میں الیکشن کے دوران کاسٹ ہونے والے ایک لاکھ بیالیس ہزار ووٹوں میں سے صرف 44 ہزار ووٹوں کی مکمل طورپر تصدیق ہو سکی ہے۔ جسٹس عمر عطا نے ان سے استفسارکیاکہ اگر صرف 44 ہزار ووٹوں کی تصدیق ہوئی ہے تویہ کس کا قصوربنتا ہے، ذمہ دار جیتنے والا امیدوار ہے یا انتخابی نظام۔ فاضل وکیل نے کہا کہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے راجہ عامر زمان کے کیس میں کچھ پولنگ سٹیشنوں پردوبارہ انتخابات کا حکم دیا تاہم بعدازاں نظر ثانی کی اپیل پر پورے حلقے کا انتخاب کا لعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کا حکم دیا گیاہے ٗراجہ عامر زمان کیس کی طرح اس کیس میں بھی انتخابی مواد متاثر ہوا ہے، اس لئے میری استدعاہے کہ اس حلقہ میں دوبارہ الیکشن کرانے کاحکم دیاجائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابی مواد کا محافظ ہے، اسے عدالت کو بتانا ہوگا کہ 29 پولنگ اسٹیشنوں کا ریکارڈ کیوں موجود نہیں سماعت کے دوران عدالت نے الیکشن کمیشن کے نمائندے کی عدم موجودگی پر برہمی کااظہارکیا اور واضح کیاکہ آئندہ ایسی صورتحال برداشت نہیں کی جائیگی۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے ا پنے دلائل میں عدالت کو آگاہ کیاکہ نادرا کی فرانزک رپورٹ میں ووٹرز کے دئیے گئے شناختی کارڈ نمبرزدرست نہیں ہیں، عموماً شناختی کارڈ نمبر 13ہندسوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن فزانزک رپورٹ میں 12 ہندسوں پرمشتمل نمبر دیئے گئے ہیں جبکہ تیرہویں نمبر کی جگہ xکا نشان لگایا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ شناختی کارڈ نمبر کے حوالے سے رپورٹ درست نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نادرا کو سنے بغیر رپورٹ کو غلط نہیں کہہ سکتے۔ عدالت الیکشن کمیشن اور نادرا حکام کو وضاحت کے لیے طلب کر لیتی ہے۔ بعدازاں عدالت نے سیکرٹری الیکشن کمیشن اور نادرا حکام کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔



کالم



ہم انسان ہی نہیں ہیں


یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…