سڈنی (این این آئی)آسٹریلیا میں حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم کے سروے کے مطابق دنیا میں اس وقت بھی ساڑھے چار کروڑ لوگ جدید دور کے غلام کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔سڈنی میں قائم واک فری فاونڈیشن کے 2016 کیلئے غلاموں سے متعلق عالمی انڈیکس کے مطابق یہ وہ غلام ہیں جن سے اس جدید دور میں بھی جبری طور پر فیکٹریوں، فارمز اور کانوں میں جبری مشقت کروائی جاتی ہے یا پھر انھیں جنسی مقاصد کے لیے زبردستی استعمال کیا جاتا ہے ٗ مردوں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس قسم کی غلامی میں پھنسے ہوئے سب سے زیادہ افراد ایشیا میں ہیں اور اس سے متعلقہ فہرست کے پہلے پانچ ممالک اسی خطے سے ہیں۔رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا میں غلامی میں جکڑے ہوئے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کی وجہ سے پہلے نمبر ہے۔دوسرے نمبر پر چین ہے جہاں 30 لاکھ سے زیادہ افراد اس قسم کی جبری مشقت کر رہے ہیں ٗ پاکستان 20 لاکھ سے زائد ایسے ’غلاموں‘ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔اس کے علاوہ بنگلہ دیش بھی پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔یہ تنظیم ایک آسٹریلوی ارب پتی اور مخیر شخصیت اینڈریو فارسٹ نے سنہ 2012 میں اس مسئلے کی جانب توجہ دلانے کے لیے قائم کی تھی۔تازہ سروے کے لیے اس تنظیم نے 167 ممالک میں 53 زبانوں میں 42 ہزار انٹرویوز کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی ۔رپورٹ کے مطابق دو سال قبل کے اندازوں کے مقابلے میں ایسے افراد کی تعداد میں 28 فیصد اضافہ ہوا۔رپورٹ میں جدید غلامی کی تشریح کچھ اس طرح سے کی گئی کہ ایک شخص دھونس یا دھمکیوں، تشدد، طاقت کے غلط استعمال یا دھوکے کی وجہ سے کام نہیں چھوڑ سکے اور قرض دار ہونے کی وجہ سے اسے ذاتی ملازم بنا کر رکھا جائے ٗدنیا کے 124 ممالک نے انسانی سمگلنگ کو اقوام متحدہ کے پرٹوکول کے تحت غیرقانونی قرار دیا ہوا ہے اور قومی ایکشن پلان بھی بنائے ہوئے ہیں تاہم فارسٹ کے مطابق یہ کافی نہیں ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم دنیا کی دس بڑی معیشتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے قوانین متعارف کروائیں جو کم از کم برطانوی ماڈرن سلیوری ایکٹ 2015 جیسا سخت ہو تاکہ اداروں کو اپنے سپلائی چین میں غلامی کیلئے جواب دہ بنایا جا سکے اور آزادانہ نگرانی کی جا سکے۔