اسلام آباد: امریکی صدر باراک اوباما کے دورہ بھارت کے بعد خطے میں سیاسی و سفارتی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں اور ایشیاء پیسیفک ریجن میں نئی گروپ بندیاں ہونے جا رہی ہیں کیونکہ امریکہ عالمی تسلط قائم رکھنے کیلئے اپنی تمام تر توجہ جنوبی ایشیاء پر مرکوز کئے ہوئے ہیں اور امریکہ اپنے عالمی تسلط کیلئے چین کو خطرہ محسوس کرتا ہے جس کا عملی اظہار امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران چند روز قبل یہ بیان دے کردیاتھا کہ دنیا کی سمت کا تعین امریکہ کرے گا۔
اگر امریکہ اپنا عالمی تسلط برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہے تو چین سمیت خطے کے دوسرے ممالک بھی اس سے غافل نہیں ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین معاشی اعتبار سے جس قدر مضبوط ہو رہا ہے وہ کسی طور امریکہ کیلئے قابل قبول نہیں ہے، پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ چین اس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ اپنی توانائیاں اپنے حریفوں کی جانب سے اپنائی جانیوالی حکمت عملی کوصرف کاونٹر کرنے پر صرف کرنے کی بجائے عملی طور پر خود کو مضبوط معیشت کا حامل ملک بنانے پر خرچ کر رہا ہے۔
چائنیز مبصرین کا کہنا ہے کہ چین نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں ہونیوالی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے ، اس کے ساتھ ساتھ چین اپنے ویژن 2050ء کے تحت مقررکردہ ہدف کے حصول کو اولین ترجیح دے رہا ہے اور اس ویژن کے تحت چین 2050 تک اپنی معیشت کا حجم اتنا بڑھانا چاہتا ہے جو امریکہ اور یورپی یونین کی مُشترکہ و مجموعی معیشت کے حجم سے بھی زیادہ ہوگا اور یہی خطرہ امریکہ کو لاحق ہے کہ آج دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کا رُخ چین کی جانب ہے ۔
دوسری جانب بھارت پر امریکہ کی نوازشات کے باوجود بھارتی سرکار شدید اضطراب سے دوچار ہے کیونکہ چین کے بغیر بھارت کا سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کا خواب پورا ہونا مُشکل دکھائی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اب چین یاترا کی تیاریاں کر رہے ہیں مگر مودی سرکار کے آنے سے دنیا میں بھارت کا امیج بھی تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہے اور سیکولر انڈیا اب مذہبی انتہاء پسند انڈیا کے طور پرپہچانا جارہا ہے اور مودی سرکار کو بھارت کے اندر بھی خمیازہ بھُگتنا پڑ رہا ہے جسکا عملی نمونہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے ریاستی انتخابات میں سامنے آچکا ہے جہاں عام آدمی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاسی انتخابات میں شکست کو تسلیم بھی کرلیا ہے ۔
خطے کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سیاسی سرگرمیان عروج پر ہیں، ایک طرف مارچ میں ہونے والے سینٹ کے الیکشن کیلئے جوڑ توڑ جاری ہے تو دوسری طرف بلدیاتی انتخابات کیلئے بھی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ سینٹ کے انتخابات میں اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی برتری واضح دکھائی دے رہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دے رہی ہے اور پیپلزپارٹی نے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن)کے پارلیمانی بورڈ نے ناموں کو حتمی شکل دیدی ہے اور ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک ناموں کا اعلان بھی ہو جائے۔
ملک کی سیاست میں تیسری قوت کے طور پر سامنے آنے والی جماعت تحریک انصاف نے صرف خیبرپختونخوا کی حد تک سینٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی سانحہ بلدیہ ٹاون کے بارے میں آنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ نے تو سیاسی ماحول کو بہت زیادہ گرما دیا ہے اور ایک بار پھر تحریک انصاف و ایم کیو ایم آنے سامنے کھڑی ہوگئی ہے اور براہ راست سنگین نوعیت کے الزامات کا تبالہ خیال ہو رہا ہے اور لگ یوں رہا ہے کہ شائد قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے تحت دہشت گردوں کے کیسوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کو دی جانیوالی چھوٹ ختم ہونے کو ہے دہشت گرد کو صرف دہشت گرد کے طور پر لینے کے مذہبی جماعتوں کے مطالبہ کو تسلیم کرلیا جائے گا اور دہشت گردوں کو شیعہ، سُنی، بریلوی، دیوبندی، مسلم غیر مسلم میں بریکٹ کرنے کے تاثر کو ختم کردیاجائیگا اور دہشت گرد کو صرف دہشت گرد کے طور پر لیا جائیگا ۔ دوسری جانب سابق گورنر چوہدری سرور بھی تحریک انصاف میں ہو گئے ہیں ، یہ بھی ایک اشارہ ہے کہ ملکی سیاست میں اب مزید تیزی آنے والی ہے ۔
اس کے علاوہ گزشتہ ہفتہ کے دوران اقتصادی پالیسیوں اور گورننس کے حوالے سے بھی ملکی سطح پر اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے ہفتہ اور اتوار کو چھُٹی کے باوجود مصروف ترین دن گذارا اور گورننس و اصلاحات کے حوالے سے اجلاس میں وزارت پانی و بجلی، آئل اینڈ گیس سمیت دیگر اہم وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانے اور موثر مانیٹرنگ کیلئے وزیراعظم آفس میں فوری طورپر ایک مانیٹرنگ سیل قائم کرنیکا فیصلہ کیا ہے جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے اسلام آبادکے مختلف بازاروں کا دورہ کیا، سبزیوں اوردالوں کے ریٹ چیک کئے، عوام سے ان کے مسائل پوچھے، اگرچہ اس موقع پر تاجروں کی جانب سے وزیراعظم کو مروجہ نرخوں سے کم قیمتیں بتائی گئیں لیکن وزیراعظم کا سکیورٹی خطرات کے باجود مارکیٹوں کے دورے کرنا ایک انتہائی خوشگوار پیغام ہے۔
اس موقع پر نواز شریف نے کہا کہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس وقت ملک میں سوئی گیس ، پٹرولیم ، بجلی کا جو بحران درپیش ہے اس کو جلد از جلد حل کر لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ای سی سی کے اجلاس میں گزشتہ کئی ماہ سے التواء کا شکار نئی پانچ سالہ ٹیکسٹائل پالیسی کی بھی منظوری دیدی گئی ہے ۔ پالیسی میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ دگنا کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے جسے حاصل کرنے کیلئے حکومت معیشت کے اس اہم شعبے کو 64 ارب روپے کی معاونت فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ برآمدات کا حجم بھی 13 ارب ڈالر سے بڑھاکر دگنا کرنا ہے۔
دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور دیگر وجوہات کے باعث ٹیکس وصولیوں میں بڑے پیمانے پر کمی کا بھی سامنا ہے جس کیلئے اگرچہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا کر ستائیس فیصد کردی ہے اور پیر کو 283 اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی ہے مگر یہ رجحان درست نہیں ہے صرف ٹیکس لگاکر یا شرح بڑھا کر ریونیو اکٹھا کرنے کی بجائے ریونیو اتھارٹیز کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔ ٹیکس سے آمدنی میں کمی کے باعث آمدن و اخراجات کے فرق کو کم کرنے کے لیے حکومت آئندہ تین ماہ میں کمرشل بینکوں سے 10کھرب روپے سے زائد قرضہ اٹھائے گی، حکومت یہ قرضہ ٹی بلز کی نیلامی سے حاصل کرے گی۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق آئندہ 3 ماہ کے لیے حکومت نے 1050 ارب روپے کے ٹی بلز بینکوں کو فروخت کا ارادہ کیا ہے اس کے علاوہ 150 ارب روپے کے انویسٹمنٹ بانڈز کی نیلامی بھی کی جائے گی البتہ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم ڈویلپمنٹ یہ ہونے جارہی ہے کہ حکومت سول سرونٹس اصلاحات متعارف کروانے جا رہی ہے۔ وزیراعظم کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے وزیراعظم کو بتایا کہ افسران کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے انہیں کارکردگی کی بنیاد پر ترقیاں اور خصوصی الاونس دینے کیلئے پانچ ارب روپے مختص کرنے کو تیار ہیں اور اس کیلئے عالمی بینک سے بھی مشاورت جاری ہے۔
سول سرونٹس اصلاحات کیلئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی اس بارے میں کام کر رہی ہے تاکہ اہل اور معیاری افسران کی حوصلہ افزائی کی جاسکے کیونکہ اس وقت بہت سے وفاقی سیکرٹری بھی ایسے ہیں جو سمری تیار کرنا تو دور کی بات ہے تیار شُدہ سمری کی توثیق بھی نہیں کرسکتے اور لابنگ ، سفارشات و سنیارٹی کی بنیاد پر ترقیاں حاصل کرکے تعینات ہونیوالے افسران پر ہی انحصار کرکے گورننس کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت اس بارے میں کوئی اقدام کرتی ہے تو مقدمہ بازی شروع ہو جاتی ہے اس لئے بہتر یہ ہے کہ سرونٹ اصلاحات کے تحت اہل اور قابل افسران کو آگے لایا جائے یہ ایک احسن اقدام ہوگا۔