اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ سال تک زمین کی سطح سے اوپر فضا میں انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے والے اتنے غبارے چھوڑ دے گا کہ وہ دنیا کے گرد دائرہ بنا لیں گے۔
گوگل نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تجرباتی منصوبے کا مقصد غباروں کے نیچے رہنے والے لوگوں کو ڈیٹا کی مسلسل فراہمی ہے۔دریں اثنا انڈونیشیا کی تین موبائل کمپنیوں نے بھی آئندہ سال پروجیکٹ ’لون‘ کو تجرباتی طور پر شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ دیگر منصوبوں کے مقابلےمیں زیادہ پائیدار حل ہے۔
اس سے قبل سری لنکا نے بھی ایک معاہدے پر دستخط کر کے اس منصوبے میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس کے تحت ہیلیئم گیس سے بھرے غبارے استعمال کیے جائیں گے۔
فور جی جیسی تیزی ان غباروں کو فضا میں 60 ہزار فٹ بلندی پر چھوڑنے سے قبل ان میں ہیلیئم گیس بھری گئی ہےگوگل نے جون 2013 میں پہلی بار اپنے اس سپر بلون منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت نیوزی لینڈ نے تقریباً 30 کے قریب پلاسٹک کے ہیلیئم گیس سے بھرے غبارے فضا میں چھوڑے تھے۔یہ غبارے ہوا سے ہلکے ہیں اور ہر غبارے کے نیچے کچھ آلات لٹکائے گئے تھے جو ڈیٹا کی تیز ترین فراہمی کا کام انجام دیتے ہیں۔ان میں ڈیٹا یا معلومات موصول کرنے اور بھیجنے کے لیے دو ریڈیو ٹرانسیورز، کے ساتھ ایک تیسرا متبادل ریڈیو بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ جی پی ایس کی نشاندہی کے لیے ایک ٹریکر بھی ہے۔
اس ٹریکر کے ذریعے غبارے کو ہوا کے رخ کے مطابق اوپر نیچے کیا جا سکے گا تاکہ غبارے کازمین پر نصب شمسی آلات سے ہمہ وقت رابطہ ممکن ہو سکے۔
ابتدا میں اس منصوبے کے تحت تھری جی کی طرز کا ڈیٹا فراہم کیا جاسکتا تھا لیکن اب یہ غبارے زمین پر نصب ایک اینٹینا کے ذریعے اس سے منسلک تمام موبائل فونز یا کمپیوٹروں کو فی سیکنڈ دس میگابائٹ کی رفتار سے ڈیٹا فراہم کر پائےگا، جبکہ برطانیہ میں فور جی کنیکشن اوسطاً فی سیکنڈ 15 میگابائٹ کی رفتار سے ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی اس منصوبے میں دیگر نئی سہولیات شامل کی جائیں گی۔ان غباروں کے ساتھ کمپیوٹر کے مختلف آلات بھی لگائے گئے ہیںپروجیکٹ لون کے نائب صدر مائک کیسیڈی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ابتدائی دنوں میں یہ غبارے پانچ سے دس دن تک کے لیے فضا میں رہتے تھے۔ لیکن اب ہم ایسے غبارے بنانےمیں کامیاب ہو گئے ہیں جو تقریباً 187 دن تک فضا میں رہ سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے ان کو فضا میں چھوڑنے کے طریقہ کار کو بھی بہتر کرلیا ہے۔ آغاز میں ہر ایک سے دو گھنٹے بعد ایک غبارہ فضا میں چھوڑا جاتا تھا جس کے لیے 14 افراد درکار ہوتے تھے لیکن اب ایک خود کار کرین کے ذریعے صرف دو سے تین لوگوں کی مدد سے ہر 15 منٹ بعد ایک غبارہ چھوڑا جا سکتا ہے۔‘
مائک کیسیڈی نے بتایا کہ اگر سب طے شدہ منصوبے کے مطابق چلا تو 2016 تک ہم اس منصوبے کا ایک اہم ہدف حاصل کر لیں گے۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ’ہمیں زمین کے گرد اس منصوبے کو مستقل جاری رکھنے کے لیے تقریباً 300 غبارے چھوڑنے کی ضرورت ہے۔‘
گوگل کے خیال میں پروجیکٹ لون موبائل فون سگنلوں کے لیے سستا حل ہے۔ اس کے ذریعے انڈونیشیا کے طول وعرض میں فائبر آپٹکس کیبل بچھانے اور پھر سگنل کے لیے کھمبے لگانے کے طویل اور مشکل کام سے بچا جاسکے گا۔اس وقت انڈونیشیا کی 25 کروڑ کی آبادی میں سے دس کروڑ لوگ انٹرنیٹ کی سہولیات سے محروم ہیں لیکن اس منصوبے سے ان تمام لوگوں تک بھی انٹرنیٹ کی رسائی ممکن ہو سکے گی۔