اسلام آباد (نیوز ڈیسک) انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت حکومت نے مقامی اور درآمدی گاڑیوں کے لیے سخت سیفٹی قوانین لاگو کرنے کا فیصلہ کرلیا۔دستاویزات کے مطابق اس وقت ملک میں تیار کی جانے والی گاڑیوں پر صرف 17 سیفٹی اسٹینڈرڈز نافذ ہیں، تاہم رواں سال یکم اکتوبر سے مزید 40 نئے سیفٹی معیار پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان آٹو موٹیو انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جائے گا تاکہ مقامی پارٹس اور مینوفیکچرنگ کے معیار کو جانچا جا سکے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے موٹر وہیکل انڈسٹری ڈویلپمنٹ ایکٹ 2025 تیار کرلیا ہے، جس کے تحت یکم اکتوبر کے بعد غیر تصدیق شدہ گاڑیاں مارکیٹ میں فروخت نہیں کی جا سکیں گی۔
اسی طرح مقامی پلانٹس کو ہر ماڈل کی گاڑی بنانے کے لیے ہیڈ کوارٹر سے لائسنس حاصل کرنا ہوگا جبکہ درآمد اور فروخت کے لیے بھی انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ سے اجازت نامہ لینا لازمی ہوگا۔پالیسی میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایکسیڈنٹ کے بعد “ڈی” کٹیگری میں شمار ہونے والی گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی ہوگی۔ نئی امپورٹ پالیسی 30 ستمبر سے نافذ العمل ہوگی۔درآمدی گاڑیوں کے لیے چیسز اور انجن نمبر کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے جبکہ گاڑی کی لوڈ کیپیسٹی، سیٹنگ کپیسٹی، ایکسلز اور حفاظتی اقدامات کو بھی لازمی تسلیم کیا گیا ہے۔الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے بھی سخت شرائط رکھی گئی ہیں جن میں بیٹری کی لائف، کارکردگی، پائیداری، چارجنگ اسٹینڈرڈز اور بیٹری ریسائیکلنگ کے تقاضے شامل ہیں۔حکومتی ذرائع کے مطابق یکم اکتوبر سے ناقص اور غیر معیاری گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی عائد ہوجائے گی۔ اگر گاڑیاں ماحولیاتی تقاضوں پر پورا نہ اتریں یا ان کی پرفارمنس خراب ثابت ہو تو انہیں ملک میں لانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔