اسلام آباد(این این آئی)نورمقدم کے قاتل نے اپنی سزا سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اس پر 23 اعتراضات اٹھا دئیے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھنے کو چیلنج کر رکھا ہے۔انہوں نے بیرسٹر سلمان صفدر کی توسط سے سپریم کورٹ میں 12 اپریل کو اپیل دائر کی جس کی سماعت کے لیے تاحال بینچ تشکیل نہیں دیا گیا۔
اپیل میں انہوں نے ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے فیصلے کو 23 وجوہات کی بناد پر غلط قرار دیا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کی سربراہی چیف جسٹس عامر فاروق کر رہے تھے جس نے گزشتہ ماہ ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھی تھی۔درخواست میں انہوں نے سوال کیا کہ فیصلے میں بتایا گیا کہ مقدمے کو معمول کے مقدمات سے مختلف انداز میں دیکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف ثبوت کمزور اور نامکمل تھے، پروسیکیوشن ریکارڈ پر واضح اور بنیادی ثبوت لانے میں ناکام ہوئی اور الزامات بلاتردد ثابت نہیں ہوئے۔درخواست میں کہا گیا کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر)تاخیر سے درج کی گئی، جس میں ایک سنی سنائی باتیں ثبوت کے طور پر پیش کی گئیں اور بنیادی گواہ کو کور اپ کے طور پر پیش کیا گیا، پروسیکیوشن نے ضمنی بیان کا غلط استعمال کیا اور مقدمے میں کئی لنکس غائب ہیں۔
انہوں نے کہاکہ موقف اختیارکیاکہ عدالت نے قانون اور سپریم کورٹ کی جانب سے بیان کیے گئے قانون کے مطابق الیکٹرونک ثبوت کا جائزہ نہیں لیا تھا۔درخواست گزار نے مقتولہ نور مقدم کے پوسٹ مارٹم کیلئے ڈاکٹر کو فراہم کیے گئے نمونوں پر بھی سوال اٹھایا، ظاہر جعفر کی دماغی حالت کا بھی درست انداز میں جائزہ نہیں لیا گیا اور انہیں میڈیکل بورڈ کے پاس بھی نہیں بھیجا گیا۔انہوں نے کہا کہ سرتن سے جدا کرنے کیلئے کیسے ایک چھوٹی سے سوئس چھری استعمال کی گئی۔
درخواست گزار پر ریپ کا الزام غلط انداز میں لگایا گیا اور نہیں شک کا فائدہ نہیں دیا گیا۔انہوںنے کہاکہ سزا دیا گیا تاہم شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا، تفتیس اور عدالت کی سماعت پر میڈیا کا اثر غالب رہا۔یاد رہے کہ 20جولائی 2021کو 27سالہ نورمقدم کو اسلام آباد میں سیکٹر ایف-7 میں ظاہر جعفر کے گھر قتل کیا گیا تھا اور ظاہر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کردی گئی تھی اور انہیں جائے وقوع سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
مقتولہ کے والد ریٹائرڈ سفارت کار شوکت مقدم کی مدعیت میں ملزم کے خلاف تعزیرات پاکستان کے سیکشن 302 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔بعد ازاں 24فروری 2022 کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے ظاہر جعفر کو سزائے موت اور دیگر دو ملزمان محمد افتخار اور جان محمد کو 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدمجی کیساتھ تھراپی ورکس کے عملے کو بھی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے اکتوبر 2021میں سزا سنائی تھی تاہم بعد میں جب ظاہر جعفر کو سزا سنائی گئی تو انہیں بری کردیا گیا۔
سیشن عدالت کے فیصلے کے بعد ظاہر جعفر نے مارچ 2022میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزائے موت چیلنج کی تھی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ نہ صرف سزائے موت برقرار رکھی بلکہ ظاہر جعفر کی 35 سالہ قید کی سزا بھی سزائے موت میں بدل دی تھی۔