اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نیب کے سابق چیئرمین جنرل منیر حفیظ نے لندن ہائی کورٹ میں کہا ہے کہ براڈشیٹ کو پاکستانی حکام نے ہر طرح کی مدد فراہم کی تھی اور نومبر 2002 کے آخر میں نواز شریف کے اثاثے تلاش کرنے اور ان کی تفتیش جاری رکھنے کے لئے واضح طور پر بتایا
گیا تھا لیکن براڈ شیٹ کسی بھی بازیابی یا پاکستان سے باہر اثاثوں کا سراغ لگانے میں ناکام رہا۔ روزنامہ جنگ میں مرتضیٰ علی شاہ کی شائع خبر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) منیر حفیظ نے یکم نومبر 2001 سے 31 اکتوبر 2005 کے درمیان نیب کے طاقتور چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 2003 کے آخر میں اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد کہ فرم اثاثوں کی بازیابی میں کوئی مدد فراہم نہیں کر رہی، براڈشیٹ ایل ایل سی اور بین الاقوامی اثاثے بازیاب کرنے والی فرم (آئی اے آر) کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کی اجازت دی ۔جنرل منیر حفیظ نے گواہ کی حیثیت سے اپنے بیان میں جولائی 2015 میں سر انتھون ایونز کو بتایا کہ براڈشیٹ نے نیب کی جانب سے ایڈمرل منصور الحق کے بارے میں تمام تر معلومات فراہم کئے جانے کے بعد اس معاملے میں محدود مدد فراہم کی ۔ پرویز مشرف کے دور میں ، جنرل امجد نے 20 جون 2000 کو براڈشیٹ اور بین الاقوامی اثاثے بازیاب کرانے کے لئے خدمات فراہم کرنے والی فرم (اے آراے)
کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تھے تاکہ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ اور 200 کے قریب دوسرے اہداف کے اثاثوں کا سراغ لگایا جاسکے۔ جنرل حفیظ کے مطابق ، براڈشیٹ اور نیب کے مابین 22 ستمبر 2002 کو ایک مسئلہ حل کرنے کے لئے لندن میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔
اجلاس اس وقت منعقد کیا گیا جب جنرل منیر کے بقول ، جنوری 2002 تک یہ بات پاکستان پر واضح ہوگئی ، کہ براڈشیٹ اثاثوں کی بازیابی کے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو رہی ۔ 15 جنوری کو جنرل منیر نے جیری جیمس کو خط میں نیب کے خدشات سے آگاہ کیا کہ اس مرحلے پر 111 رجسٹرڈ
اہداف تھے لیکن ڈیڑھ سال بعد بھی براڈشیٹ کی کارکردگی “ٹھوس نتائج کے بغیر” رہی۔ اسی خط میں ، نیب کے چیئرمین نے جیری جیمس کو بتایا کہ براڈشیٹ نے پچھلے 7 ماہ کی تحقیقات کے بارے میں کوئی تازہ پروگریس فراہم نہیں کی اور نہ ہی کوئی اثاثہ برآمد ہوا ہے۔ لندن کے
اجلاس میں ، براڈشیٹ کے جیری جیمس نے جنرل حفیظ سے پوچھا کہ کیا براڈ شیٹ میاں نواز شریف کیس کی تحقیقات جاری رکھے۔جنرل منیر نے جواب دیا کہ براڈشیٹ کو اس ضمن میں کام “جاری رکھنا چاہئے”۔ عدالتی کاغذات کے مطابق ، اسی ملاقات میں نیب کے سینئر عہدیدار طلعت گھمن
نے براڈشیٹ سے کہا کہ وہ نواز شریف کیس کو برطانوی ہوم آفس میں منتقل کریں۔جنرل منیر نے لندن اجلاس کے دوران جیری جیمس کو آگاہ کیا کہ نیب کو نواز شریف کی جانب سے پاکستان روانگی کے بعد سیکوئی ادائیگی موصول نہیں ہوئی ہے اور وہ مستقبل میں بیرون ملک ادائیگی
موصول ہو نے پربراڈشیٹ کو مشورہ دیں گے ۔ جنرل منیر نے براڈشیٹ کو بتایا کہ اس میں کسی خفیہ یا نامعلوم پلی بارگین کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی ہے۔ انہوں نے براڈشیٹ کو یقین دلایا کہ میڈیا رپورٹس کے برعکس نیب اور شریف کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا ۔انہوں نے زور دے
کر کہا کہ اسی وجہ سے نیب نے براڈشیٹ کو ہدایت کی کہ وہ نواز شریف کے غیر ملکی اثاثوں کا پتہ لگائے اور وطن واپس بھیجنے کے لئے اپنی تحقیقات جاری رکھے۔ 2 نومبر 2002 کو ، جنرل منیر حفیظ نے ، براڈشیٹ کے حق میں ، دوسرے پاور آف اٹارنی پر دستخط کیے ، تاکہ وہ
تحقیقات جاری رکھے جو نواز شریف پر مرکوز ہیں۔ براڈشیٹ کو شبہ تھا کہ شاید نواز شریف نیب کو ادائیگی کرنے کے بعد پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ اس وقت تک ، براڈشیٹ نے پہلے ہی نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے آٹھ افراد کے بارے میں تحقیقات کے لئے جاسوس ایجنسی میٹرکس ریسرچ
کی خدمات حاصل کرنے کے لئے لگ بھگ 000 500 پونڈزکا بل تیار کیا تھا۔میٹرکس ریسرچ لمیٹڈ کچھ بھی غیر قانونی تلاش کرنے میں ناکام رہی ۔ جب جیری جیمس نے جنرل منیر سے میٹرکس کو ادائیگی کے لئے “نیک نیتی کی علامت کے طور پر” کے طور پر480000کی ادائیگی
کے لئے کہا ، تو نیب کے چیئرمین نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اس طرح کی ادائیگی کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور یہ کہ ان کے پیشرو جنرل مقبول نے ایسی کوئی کمٹمنٹ نہیں کی تھی۔جنرل منیر نے کہا کہ انہوں نے جنرل امجد ، جنرل مقبول اورفاروق آدم خان سے بات کی، سب نے اس
بات پر اتفاق کیا کہ براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ صرف پاکستان سے باہر واقع اثاثوں کے لئے تھا لیکن بعد میں فاروق آدم خان نے مجھے لکھا کہ پاکستان کے اندر اہداف سے وصولی بھی اس کے اندر آتی ہے۔ دسمبر 2001 میں ، نیب نے ایڈمرل منصور کے ساتھ 7.5 ملین ڈالر کی پلی بارگین کا
معاہدہ کیا اور یہ وہ واحد واقعہ تھا جہاں پاکستان سے باہر نیب نے کامیابی سے اثاثے بازیاب کئے۔ جنرل منیر کو جیری جیمس کا ایک خط موصول ہوا جس میں بازیاب ہونے والی رقم کے 20 فیصد حصے کے ساتھ ساتھ 8 فیصد بونس بھی مانگا گیا جو کہ معاہدہ کا حصہ نہیں تھا۔جنرل منیر نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے بہت سارے ثبوت فراہم کر دیئے تھے اور براڈشیٹ کو پاکستان سے باہر ضروری اقدامات کرنا تھے۔