آرمی چیف سے بزنس مینوں کی میٹنگ

19  مارچ‬‮  2023

گوہر اعجاز چنیوٹی شیخ فیملی سے تعلق رکھتے ہیں‘ دادا زمین دار تھے لیکن یہ 1947ء میں کراچی شفٹ ہوئے اور کاروبار شروع کر دیا‘ والد شیخ اعجاز احمد جوان ہوئے تو دادا نے ایک مربع زمین بیچی‘ بیٹے کو 50 ہزار روپے دیے اور خود ریٹائرمنٹ لے لی‘ والد نے کاروبار شروع کیا اور کمال کر دیا‘ یہ دو دہائیوں میں ارب پتی بن گئے‘ سینیٹر بھی بنے اور 18 سال چیمبر کی سیاست بھی کی‘

یہ بعدازاں گردوں کی خرابی کی وجہ سے ڈائلیسز پر چلے گئے‘ گوہر اعجاز اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے‘ والد نے انہیں بلایا اور کاروبار ان کے حوالے کر کے خود کو ویلفیئر کے کاموں کے لیے وقف کر دیا‘ یہ لوگ اس وقت اجناس کی ٹریڈنگ کرتے تھے‘گوہر اعجاز نے یہ کاروبار سنبھال لیا‘ 1991ء میں کراچی کے حالات خراب ہونے لگے تو والد نے انہیں لاہور بھجوا دیا‘ گوہر اعجاز نے لاہور آ کر 5 ٹیکسٹائل ملز لگا لیں‘ یہ اس کے بعد رئیل سٹیٹ میں آئے اور 30 ہزار ایکڑ پر لیک سٹی بنا دیا‘ اپٹما کی سیاست میں بھی آئے‘باڈی بنائی‘ حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے اور پاکستان کو ٹیکسٹائل ایکسپورٹر کنٹری بنا دیا‘ یہ اس وقت بھی پاکستان کے بارہ بڑے بزنس مینوں میں شامل ہیں لیکن ان کا اصل کمال ویلفیئر ہے‘ یہ 17 برسوں سے جناح ہسپتال میں مریضوں کے مفت ڈائلیسز کرا رہے ہیں‘ اس سہولت سے سال میں 50 ہزار مریض مفت فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس پر گوہر اعجاز کے 30 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں‘ یہ اس کے ساتھ ساتھ جناح ہسپتال کے مریضوں‘ لواحقین اور عملے میں روزانہ کھانے کے 10 ہزار پیکٹس بھی تقسیم کرتے ہیں‘ ان میں ناشتہ‘ لنچ اور ڈنر شامل ہوتا ہے اور یہ کام بھی یہ 16 برسوں سے کر رہے ہیں‘ یہ اس کے ساتھ ساتھ یتیم خانے‘ سکول اور راشن کی سکیمیں بھی چلا رہے ہیں‘ اب سوال یہ ہے گوہر اعجاز اس طرف کیوں اور کیسے آئے؟

اس کی وجہ بہت دل چسپ ہے‘ یہ 2008ء میں 10 ارب روپے کے مقروض تھے‘ انہوں نے دعا کی اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے قرض سے نجات دے دی تو میں اپنی کمائی کا 50 فیصد اللہ کی راہ پر خرچ کروں گا‘ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کر لی‘ یہ 2016ء میں قرض سے نجات پا گئے اور پھر وہ دن ہے اور یہ دن ہے یہ اپنی آمدنی کا آدھا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں اور اس کے بدلے اللہ انہیں ہر قسم کے مسئلے اور مصیبت سے محفوظ رکھتا ہے‘گوہر اعجاز عمران خان کے بہت بڑے سپورٹر اور فنانسر تھے لیکن 2021ء میں علیم خان کی وجہ سے اختلافات پیدا ہو گئے اور یہ عمران خان سے دور ہو گئے۔

7 مارچ2023ء کو آرمی چیف ہائوس میں ملک کے دس بڑے بزنس مینوں کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات ہوئی تھی‘ مجھے کسی ذریعے سے پتا چلا اس میٹنگ کے لیے گوہر اعجاز نے اہم کردار ادا کیا تھا لہٰذا میری اس بدھ اور جمعرات کو لاہور میں گوہر اعجاز سے دو ملاقاتیں ہوئیں‘ گوہر اعجاز نے بتایا میرے ساتھ پنجاب کے پانچ بزنس مین تھے جب کہ پانچ بزنس مینوں کو عارف حبیب کراچی سے لے کر آئے تھے یوں ہم دس لوگ اس میٹنگ میں شریک ہوئے‘

کراچی سے عارف حبیب‘ بشیر جان محمد‘ محمد علی تبہ‘ شاہد سورتی اور شہباز ملک تھے جب کہ پنجاب سے میں‘ فواد مختار‘ شہزاد اصغر‘ فیصل آفریدی اور میاں احسن تھے‘ میں نے پوچھا‘ آپ آرمی چیف سے کیوں ملے؟ ان کا جواب تھا پاکستان معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے‘ ہم دس لوگ یہ محسوس کرتے ہیں پاکستان کو اس وقت ہماری ضرورت ہے‘

ہم ملک کے بڑے ایکسپورٹرز بھی ہیں اور امپورٹرز بھی اور ہمارے پاس 10لاکھ لوگوں کی ورک فورس بھی ہے‘ ہم ریاست کو یہ یقین دلانا چاہتے تھے ہم ان حالات میں بھی ملک سے باہر نہیں جا رہے‘ ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہیں‘ دوسرا ہمارا خیال تھا ہماری ملاقات کے بعد بزنس مین کمیونٹی کے اعتماد میں اضافہ ہو گا چناں چہ ہم نے آرمی چیف سے رابطہ کیا اور ہمیں مثبت جواب ملا‘ میں نے پوچھا‘

آپ حکومت کے پاس کیوں نہیں گئے؟ یہ ہنس کر بولے‘ حکومت عمران خان کی ہو یا پی ڈی ایم کی یہ فیصلہ سازی میں مار کھا جاتی ہے جب کہ معیشت فوری اور ٹھوس فیصلوں کے بغیر نہیں چل سکتی‘ معیشت میں آج اور ابھی بہت اہم ہوتا ہے جب کہ سرکاری فائربریگیڈمیں پانی بھروانے کا عمل بھی چھ دن میں مکمل ہوتا ہے چناں چہ جنرل باجوہ ہوں یا جنرل عاصم مینر ہم بالآخر فوج کے پاس جانے پرمجبور ہو جاتے ہیں‘

میں نے پوچھا ’’لیکن کیوں؟‘‘ یہ بولے ’’مثلاً پاکستان کی میجر ایکسپورٹ ٹیکسٹائل ہے‘ ہم نے 2021-22ء میں ساڑھے 19 بلین ڈالرز کی ٹیکسٹائل مصنوعات ایکسپورٹ کی تھیں اور یہ ہماری پوٹینشل کا آدھا ہے‘ ہم بڑی آسانی سے اسے ڈبل کر سکتے ہیں لیکن ٹیکسٹائل کے لیے کپاس چاہیے اور پاکستان میں کپاس کی پیداوار تیزی سے کم ہو رہی ہے‘ ہم ہر سال باہر سے چار بلین ڈالرز کی کپاس منگواتے ہیں‘

اس کا دھاگا اور کپڑا بنتا ہے اور پھر گارمنٹس بن کر ایکسپورٹ ہوتی ہیں چناں چہ ہمارے پاس اگر کپاس نہیں ہو گی تو ایکسپورٹ رک جائے گی اور کپاس خریدنے کے لیے چار بلین ڈالرز چاہییں جب کہ ہمارے مالیاتی ذخائر تین بلین ڈالر سے بھی کم ہیں لہٰذا پھر کاروبار کیسے چلے گا؟ ہم دس سال سے حکومت کے دروازے پر ٹکریں مار رہے ہیں آپ ملک میں کپاس کا نیا بیج آنے دیں تاکہ ہم اپنی ضرورت کی کپاس پیدا کر سکیں‘ ہمیں باہر سے نہ منگوانی پڑے لیکن وفاق ہمیں صوبوں کے پاس بھجوا دیتا ہے

اور صوبے ’’ہمارے پاس اتھارٹی نہیں ہے‘‘ کا جواب دے کر ہمیں دوبارہ اسلام آباد روانہ کر دیتے ہیں‘ ہم پھر کیا کریں؟ دوسرا ہم ہر سال چھ بلین ڈالر کا کھانے کا تیل منگواتے ہیں جب کہ ہم بڑی آسانی سے ملک میں کارن‘ سورج مکھی‘ کینولا اور سویا بین اگا کر یہ چھ بلین ڈالر بچا سکتے ہیں مگر حکومت ہمیں پلہ نہیں پکڑاتی‘ ہم نے اس دن یہ حقیقت آرمی چیف کے سامنے رکھی اور فوری طور پر یہ فیصلہ ہو گیا‘

حکومت ہمیں زمینیں اکٹھی کر کے دے گی‘ ہم باہر سے کمپنیاں لے کر آئیں گے اور ملک میں کارپوریٹ ایگری کلچر فارمنگ شروع ہو جائے گی‘ سعودی عرب‘ قطر اور یو اے ای اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں مگر یہ حکومت کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے‘ یہ بھی ہماری طرح اسٹیبلشمنٹ سے گارنٹی مانگتے ہیں اور ہم نے یہ حقیقت اس دن بتائی‘ بالکل اسی طرح مائننگ اور آئی ٹی میں بھی بے تحاشا پوٹینشل ہے اور چین اور عرب ممالک ان سیکٹرز میں بھی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں مگر ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے لہٰذا کام کیسے ہوگا؟‘‘۔

میں نے پوچھا ’’کیا میٹنگ میں کوئی سیاسی گفتگو ہوئی تھی؟‘‘ یہ قطعی لہجے میں بولے ’’ہرگز نہیں‘ ہمارا ایجنڈا صرف معیشت اور بزنس تھا تاہم بشیر جان محمد(ڈالڈا کے مالک) نے اسحاق ڈار سے اتنا کہا تھا آپ الیکشن کرا دیں سیاسی استحکام کے بغیر ملک نہیں چل سکے گا‘‘ میں نے یہ سن کر بشیر جان سے پوچھا تھا ’’اگر پی ڈی ایم الیکشن جیت گئی تو کیا عمران خان نتائج مان لیں گے؟‘‘

میرے اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’آرمی چیف کا اس پر کیا رد عمل تھا؟‘‘ یہ بولے ’’انہوں نے کوئی ریسپانس نہیں دیا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیااسٹیبلشمنٹ موجودہ حالات سے پریشان ہے؟‘‘ یہ بولے ’’آرمی چیف نے ہمیں قرآن مجید اور احادیث کا حوالہ دے کر بتایا انسانوں اور قوموں پر ایسے مشکل وقت آتے رہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ وقت پھیرتا رہتا ہے‘

ہم بھی بہت جلد اس مشکل سے نکل آئیں گے‘ مجھے ان کی گفتگو سن کر محسوس ہوا وہاں بھی تشویش موجود ہے لیکن پریشانی نہیں ہے‘یہ لوگ پرامید ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا اسحاق ڈار آئی ایم ایف کی وجہ سے پریشان تھے؟‘‘یہ بولے ’’جی ہاں یہ تھے‘ ان کا کہنا تھا تمام شرائط ماننے کے باوجود آئی ایم ایف ہماری ناک رگڑ رہا ہے اور جب تک یہ معاملہ نہیں نبٹے گا ہم بحران سے باہر نہیں آ سکیں گے‘‘ میں نے مشورہ دیا

’’ہمیں متبادل راستے بھی تلاش کرنے چاہییں‘ ہمیں روس اور ایران سے سستا پٹرول لینا چاہیے‘ ہمیں انرجی میں بھی خود کفالت کا بندوبست کرنا چاہیے‘ ہم آخر کب تک اس طرح ہاتھ پھیلاتے رہیں گے؟‘‘ میں نے پوچھا ’’عمران خان نے آپ کی ملاقات کے بعد یہ کیوں کہا تھا یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے ہماری حکومت گرائی تھی؟‘‘

یہ ہنس کر بولے ’’میں نے دسمبر 2022ء میں تین بزنس مینوں کے ساتھ زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کی تھی‘ میں نے انہیں مشورہ دیا تھا آپ صوبوں میںاسمبلیاں نہ توڑیں‘ مدت پوری کریں اور الیکشن وقت پرہونے دیں ورنہ ملک میں عدم استحکام ہو جائے گا‘ معیشت بھی جائے گی اور آپ کو الیکشن بھی نہیں ملیں گے لیکن ان کا جواب تھا مجھے میرے وکیل بتا رہے ہیں حکومت 90 دنوں میں ہر صورت الیکشن کرائے گی

اور یوں میں دونوں صوبوں میں دوبارہ حکومت بنا لوں گا‘ میں نے انہیں بتایا‘ آپ میری بات لکھ لیں‘ آپ نے اگر اسمبلیاں توڑ دیں تو 90 دنوں میں الیکشن نہیں ہو سکیں گے اور آپ صوبوں سے بھی جائیں گے مگر یہ نہ مانے اور آج آپ صورت حال دیکھ لیں چناں چہ ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی تھی‘

ہم تو دسمبر 2022ء میں بھی انہیں بچا رہے تھے‘ یہ گڑھا عمران خان نے خود کھودا ہے اور یہ روز دوسروں کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کی آرمی چیف سے ملاقات کا کیا فائدہ ہوا؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’بہت فائدہ ہوا‘ بزنس مین کمیونٹی کے اعتماد میں اضافہ ہوا‘ پنجاب حکومت نے 45267 ایکڑ زمین اکٹھی کر کے فوج کے حوالے کر دی‘نوٹی فکیشن جاری ہو چکا ہے‘

ہم اب اس زمین پر غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کریںگے‘ زراعت ترقی کرے گی اور ہم کم از کم اجناس میں خود کفیل ہو جائیں گے اور اس سے اربوں ڈالر کا سرمایہ بچے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’عمران خان کا ایشو کیا ہے؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’یہ بہت جلد دوسروں کی باتوں میں آ جاتے ہیں‘‘۔



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…