تین دن تیونس میں

29  ‬‮نومبر‬‮  2022

آپ اگر دنیا کے نقشے پر میڈی ٹیرین سی دیکھیں تو آپ کو آخر میں اونٹ کا کوہان دکھائی دے گا اور اس پر تیونس لکھا ہوگا‘ یہ یورپ کی طرف سے افریقہ کا پہلا اور افریقہ کی جانب سے آخری ملک ہے‘ سمندر کی دوسری جانب اٹلی‘ فرانس اور سپین ہیں‘ تیونس کے معانی پہلا مقام ہے‘ دارالحکومت کا نام بھی تیونس ہے‘ دارالحکومت کے مضافات میں قرطاج کے آثار قدیمہ ہیں‘

قرطاج زمانہ قبل مسیح میں بڑی اور مضبوط سلطنت ہوتی تھی‘اس نے کئی بار رومن ایمپائر کو ناکوں چنے چبوائے‘ قرطاج کے سپہ سالار ہنی بال نے 218 قبل مسیح میں رومن ایمپائر پر ہاتھیوں سے حملہ کیا اور روم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لہٰذا رومی بادشاہوں نے تنگ آ کر قرطاج پر پوری طاقت سے حملہ کیا اور 202قبل مسیح میں ساری سلطنت تارتار کر دی‘ قرطاج کو جلا کر مسمار کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود قرطاج کے آثار آج بھی تیونس شہر کے مضافات میں موجود ہیں اور دیکھنے والوں کو حیران کر دیتے ہیں‘ یونیسکو نے 1979ء میں قرطاج کو عالمی ورثہ قرار دے دیا تھا‘ تیونس ماضی میں کیوں کہ قرطاج کا پہلا مقام یا پہلا پڑائو ہوتا تھالہٰذا یہ تیونس کہلاتا رہا اور یہ آج بھی کہلاتا ہے۔میں 23 نومبر کو تین دن کے لیے تیونس گیا‘ میں وہاں کیوں گیا؟ اس کی چار وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ میں نے بچپن میں درسی کتابوں میں تیونس کا ذکر پڑھا تھا‘ ہمارے زمانے کے سلیبس میں پاکستان کے دوست ملکوں کا ذکر ہوتا تھا‘ میں نے اس زمانے میں پڑھا تھا پاکستان نے تیونس کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ ہم نے تیونس کے لیڈروں کو پاسپورٹس بھی دیے تھے لہٰذا آزادی کے بعد تیونس نے اپنی دو اہم سڑکیں قائداعظم محمد علی جناح اور پطرس بخاری کے نام منسوب کر دی تھیں‘ تیونس طویل عرصہ پاکستان کو اپنا محسن بھی قرار دیتا رہا لیکن ہم نے پھر دوسرے دستوں کی طرح اپنے اس دوست کو بھی فراموش کر دیا‘ دوسری وجہ مراکو کے شہر فاس کی یونیورسٹی القروین تھی‘

یہ جامعہ تیونس کے شہر قیروان کے ایک تاجر کی بیٹی نے قائم کی تھی اور یہ دنیا میں ڈگری جاری کرنے والی پہلی یونیورسٹی تھی‘ میں نے تین بار یہ یونیورسٹی وزٹ کی اور گائیڈ نے ہر بار یہ بتایا القروین یونیورسٹی بنانے والا خاندان تیونس کے شہر قیروان سے ہجرت کر کے یہاں آیا تھا اور میں نے ہر بار سوچا اگر اللہ تعالیٰ نے مہلت دی تو میں قیروان ضرور جائوں گا‘ تیسری وجہ عرب سپرنگ تھی‘

تیونس دنیا کا پہلا عربی ملک ہے جس نے 2011ء میں اپنے صدر زین العابدین (بن علی) کے خلاف تحریک چلا کر عرب سپرنگ کی بنیاد رکھی‘ صدر بن علی عوامی احتجاج سے گھبرا کر سعودی عرب میں پناہ گزین ہو گئے جس کے بعد عرب دنیا میں حوصلہ پیدا ہوا اور مصری عوام نے حسنی مبارک‘ شامی عوام نے بشار الاسد‘ لیبیا کے لوگوں نے کرنل قذافی اور مراکو‘ عراق‘ الجیریا‘لبنان اور سوڈان کے لوگوں نے اپنے حکمرانوں کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اور یہ ملک بھی تیونس کی طرح سیاسی تبدیلیوں کاہدف بنتے چلے گئے اور چوتھی وجہ ابن خلدون اور طارق بن زیاد تھے‘

طارق بن زیاد تیونس کے بربر قبیلے سے تعلق رکھتا تھا‘ ابن خلدون بھی 1332ء میں تیونس میں پیدا ہوا تھا اور اس کی زندگی کا بڑا حصہ تیونس ہی میں گزرا تھا‘ میں ان دونوں مشاہیر کے فٹ پرنٹ بھی تلاش کرنا چاہتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ تیونس شمالی افریقہ کا پہلا مسلمان ملک بھی تھا‘ عقبہ بن نافع نے 670ء میں تیونس فتح کیا اور اسلام تیونس سے ہوتا ہوا پورے افریقہ میں پھیل گیا‘

آپ کے لیے شاید یہ اطلاع نئی ہو رومن قبل مسیح میں تیونس کو افریقی کہتے تھے اور آہستہ آہستہ پورا براعظم اس نام سے منسوب ہو گیا بہرحال قصہ مختصر ’’آئی بیکس‘‘ کا گروپ بنا اور ہم 30 لوگ تیونس پہنچ گئے‘ یہ پاکستان سے تیونس کا پہلا سیاحتی گروپ تھا اور اس گروپ کے لیے پاکستان میں تیونس کے سفیربرہان الکمال نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔

تیونس اسلامی ملک ہے‘ 99فیصد لوگ مالکی سنی ہیں‘ یہ کٹڑ مسلمان ہیں لیکن ساتھ ساتھ انتہائی لبرل بھی ہیں‘ پورے ملک میں بیچز ہیں اور گرمیوں میں پورے یورپ سے دس پندرہ لاکھ سیاح تیونس آ کر یہ تمام بیچز آباد کر دیتے ہیں‘ ملک میں سیکڑوں ہوٹل اور ریزارٹ ہیں‘ ہمیں دو راتیں حمامت میں گزارنے کا موقع ملا‘ یہ تیونس شہر کا ہمسایہ ٹائون ہے‘ آبادی ایک لاکھ ہے لیکن گرمیوں میں یہاں تین لاکھ سیاح آ جاتے ہیں‘ حمامت کے دو کلو میٹر کے ساحلی علاقے میں 70 ہوٹل ہیں جن میں 51 فائیو سٹار ہیں‘

آپ اس سے ملک کے باقی علاقوں کا اندازہ کر لیجیے‘ ٹورازم ان کی دوسری بڑی انڈسٹری ہے‘ پہلی انڈسٹری زراعت ہے‘ یہ لوگ دنیا کا بہترین زیتون اگاتے ہیں‘ سپین کے بعد تیونس زیتون ایکسپورٹ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے‘ یہ زیتون کے بعد انگور کی دنیا کی بہترین شراب بناتے ہیں اور اس کی ایکسپورٹ سے اربوں روپے کماتے ہیں‘ پورا ملک سیاحتی مقام ہے‘ ملک کا آدھا حصہ صحارا میں آتا ہے‘

دنیا کے اس عظیم صحرامیں بھی تیونس نے خیمہ بستیاں آباد کر کے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے‘ سٹاروار کی پہلی فلم اسی صحرا میں فلمائی گئی تھی‘ اس کے سیٹ ابھی تک وہاں موجود ہیں اور ہر سال لاکھوں سیاح ان کی ’’زیارت‘‘ کے لیے ماتماتا(Matmata) اور لاگرینڈے ڈونے (La Grande Dune)کے ٹائون میںآتے ہیں اور سٹار وار کے سیٹ دیکھتے ہیں‘

تیونس شہر کے مضافات میں سیدی بوسعید (Sidi Buo Said) نام کا چھوٹا سا پہاڑی ٹائون ہے‘ بوسعید اپنے سفید گھروں‘ نیلی کھڑکیوں اور پتھریلی گلیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ اس کا کیفے سیدی شبانہ (Sidi Chabaane)دنیا بھر کے لیے سیاحتی اٹریکشن ہے‘ میں نے اس کیفے میں زندگی میں پہلی بار بادام کی چائے پی‘ یہ لوگ بادام کی چھیلی ہوئی گریوں میں پودینے کی چائے ڈال دیتے ہیں اور اس کا ذائقہ بدل جاتا ہے‘ کیفے کی لوکیشن شان دار ہے‘ یہ مختلف ٹیرسز سے ہوتا ہوا سمندر کے کنارے پہنچ جاتا ہے‘

آپ نے فلموں میں یونان کا شہر سینتوریتی (Santorini) دیکھا ہو گا‘ سیدی بوسعید اس کی ہو بہو نقل ہے‘ یہ ٹائون عرب کے ایک بزرگ سید ابوسعید الباجی نے گیارہویں صدی میں آباد کیا تھا‘ علاقہ اس سے قبل جبل مینارکہلاتا تھا لیکن ان کی برکت سے یہ سیدی بو سعید ہو گیا‘ ٹائون اپنے مصوروں‘ فن کاروں اور موسیقاروں کی وجہ سے مشہور ہوا اور اس کی شہرت آہستہ آہستہ دنیا تک پہنچ گئی‘

سیدی بو سعید کے گھر پرانے اور چھوٹے ہیں اور ان میں سفید اور نیلا رنگ حاوی ہے‘ آپ اگر سمندر سے دیکھیں یا پھر ڈرون ویو لیں تو ٹائون کی سفیدی اور نیلا رنگ آپ کو فوراً اپنی طرف کھینچ لے گا‘ میں دو بار سیدی بو سعید گیا اور دونوں مرتبہ میرا دل وہاں سے اٹھنے کے لیے تیار نہیں ہو رہا تھا‘ قدیم پتھریلی گلیوں میں درجنوں کیفے‘ ریستوران اور دکانیں ہیں‘ شام کے وقت موسیقار آ جاتے ہیں

اور یہ مختلف چوراہوں میں کھڑے ہو کر گانا بجانا شروع کر دیتے ہیں اور لوگ کھڑے ہو کر انہیں داد دیتے ہیں‘ مکانوں کی چھتوں پر ریستوران‘ کیفے اور سٹنگ سپیسز ہیں‘ شام کے وقت تمام چھتیں آباد ہو جاتی ہیں اور سمندر کی ہوا اور پانی میں ڈولتی ڈوبتی روشنیاں اس منظر کو مزید خواب ناک بنا دیتی ہیں‘ سیدی بو سعید واقعی لائف ٹائم تجربہ ہے۔

عرب شہر کے قدیم علاقوں کو مدینہ اور مارکیٹ کو قصبہ کہتے ہیں‘ تیونس کے تمام شہروں میں بھی مدینہ موجود ہیں اور یہ خوب صورت اور صاف ستھرے بھی ہیں‘ تیونس شہر صفائی اور خوب صورتی میں یورپ سے بہت آگے ہے‘ ہمارے گروپ کو کسی جگہ کچرا‘ گند یا ہجوم دکھائی نہیں دیا‘ لوگ ہارن تک نہیں بجاتے‘ ٹریفک بھی جیم نہیں ہوتی اور اس سارے بندوبست کے ساتھ ہمیں کسی جگہ

پولیس اور فوج بھی دکھائی نہیں دی‘ لوگ دھیمے‘ میٹھے اور شائستہ ہیں‘ لڑتے‘ جھگڑتے اور بحث نہیں کرتے‘ بھکاری نہ ہونے کے برابر ہیں‘ خواتین بھی کام کرتی ہیں‘ حجاب اور جینز دونوں نظر آتی ہیں‘ لوگ بے تحاشا سگریٹ پیتے ہیں‘ شاید یہ لوگ سگریٹ نوشی میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں‘

خواتین بھی دل کھول کر سگریٹ نوشی کرتی ہیں‘ گاڑیوں کے اندر سے بھی تمباکو کی بو آتی ہے اور کیفے اور ریستورانوں سے بھی‘ غربت ہے لیکن کرنسی تگڑی ہے‘ ایک ڈالر کے تین دینار آتے ہیں‘ اوسط آمدنی ساڑھے تین سو دینار ہے اور لوگ اس میں بھی خوش ہیں‘ کھانا بہت اچھا بناتے ہیں‘ مہمان نواز اور ہمدر ہیں‘ اجنبیوں سے خوف زدہ نہیں ہوتے‘ انہیں اپنے گھروں میں بھی ٹھہرا لیتے ہیں‘

دیہات بھی صاف ستھرے ہیں‘ زیتون کا تیل‘ شہد اور پنیر بہت استعمال کرتے ہیں‘ طب کا شعبہ بہت مضبوط ہے‘ تیونس کے ڈاکٹر پورے یورپ میں ملتے ہیں اور یہ ماہر بھی ہوتے ہیں‘ ہسپتال اور کلینک بہت اچھے ہیں لہٰذا لوگ علاج کے لیے یورپ سے آتے ہیں‘ جڑی بوٹیوں کی صنعت بھی تگڑی ہے‘ تمام شہروں میں مصالحوں اور جڑی بوٹیوں کی دکانیں ہیں‘ یاسمین کی خوشبو اور تیل بہت استعمال کرتے ہیں‘

آپ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں آپ کو وہاں یاسمین کی خوشبو ضرور ملے گی‘ ملک کرائم فری ہے‘ آپ دن رات کسی بھی وقت کسی بھی طرف نکل جائیں آپ کو کوئی شخص تنگ نہیں کرے گا تاہم رش میں موبائل اور پرس چوری کی اِکادُکا وارداتیں ہوتی رہتی ہیں‘ ٹیکسیاں مہنگی اور غیرمعیاری ہیں‘ دکان دار چیزوں کے نرخ دس گنا زیادہ بتاتے ہیں لہٰذا آپ بڑی آسانی سے سو دینار کی چیز دس دینار میں خرید سکتے ہیں

اور وہ بھی اگلی دکان پر پانچ دینار کی نکلتی ہے‘ گھر خوب صورت اور ہوا دار ہوتے ہیں‘ صحن میں مالٹے کا درخت اور بوگن بیل ضرور ہوتی ہے‘ گرمیوں میں درجہ حرارت 50سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوجاتا ہے لہٰذا یہ لوگ مکانوں کی دیواریں موٹی بناتے ہیں‘ دوسری شادی کی اجازت نہیں اور تیونس کی خواتین کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہے لہٰذا زیادہ تر مرد اپنی بیویوں سے تنگ ہیں‘ آپ کسی سے اس کی ازدواجی زندگی کے بارے میں پوچھ لیں وہ فوراً لمبی آہ بھر کر آسمان کی طرف دیکھے گا۔



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…