برین ڈرین

3  ‬‮نومبر‬‮  2016

جاوید چودھری
عرفان جاوید میرے قریبی دوست ہیں‘ یہ سول سرونٹ ہیں اور آج کل کراچی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں‘ عرفان نے لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں گریجوایشن کی تھی‘ انہوں نے گریجوایشن کے بعد سی ایس ایس کا امتحان دیا‘ پاس کیا اور سرکاری ملازمت میں آگئے۔عرفان کے ساتھ سینکڑوں طالب علم یونیورسٹی سے فارغ ہوئے تھے‘ یہ تمام طالب علم باکمال انجینئر تھے لیکن آج ان میں سے کوئی شخص اپنی فیلڈ میں موجود نہیں۔ یہ تمام لوگ ملک سے باہر جا چکے ہیں یا پھر عرفان جاوید کی طرح دوسرے شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ المیہ صرف عرفان جاوید کے بیج تک محدود نہیں بلکہ ان سے سینئر اور جونیئر کلاسز کے 90فیصد انجینئر اس وقت امریکا‘ لاطینی امریکا‘ یورپ اور گلف شفٹ ہو چکے ہیں اور یہ اقوام ان کے ٹیلنٹ اور مہارت سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ انجینئرنگ کے بعد میڈیکل سائنس دوسرا شعبہ ہے جو بری طرح برین ڈرین کا شکار ہے۔ پنجاب ہرسال سرکاری سطح پر 2300جبکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے ذریعے 800ڈاکٹرز پیدا کرتا ہے‘ ان میں سے ہر سال ڈیڑھ سے دو سو ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کیلئے ملک سے باہر چلے

جاتے ہیں اور پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتے۔ پنجاب میں ایسے 250ڈاکٹرز بھی موجود ہیں جو رخصت پر ملک سے باہر گئے اور واپس لوٹ کر نہیں آئے‘ ان ڈاکٹروں کوملک سے غائب ہوئے چار سے دس سال ہو گئے ہیں اور محکمہ صحت ان کی چھٹی میں توسیع کرتا چلا جا رہا ہے جبکہ ملک کے دس فیصد ڈاکٹرز تعلیم مکمل کرنے کے بعد سی ایس ایس کر لیتے ہیں یا پھر کسی دوسرے شعبے کا رخ کرتے ہیں اور یوں ان کی طبی قابلیت ضائع ہو جاتی ہے‘ ملک میں پیدا ہونے والی 30فیصد لیڈی ڈاکٹرزبھی شادی کے بعد میڈیکل کا شعبہ چھوڑ دیتی ہیں‘ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت امریکا میں 13ہزار چار سو‘ برطانیہ میں 9ہزار‘ آسٹریلیا میں 3 ہزار اور مڈل ایسٹ میں ساڑھے آٹھ ہزار پاکستانی ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں چنانچہ اگر دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے پاکستانی پروفیشنل دو بڑے مسائل کا شکار ہیں۔ ایک ان لوگوں کو اپنے اپنے

شعبے میں پوٹینشل دکھائی نہیں دے رہا چنانچہ ان لوگوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے بعد احساس ہوتا ہے ان کا شعبہ انہیں ’’کوالٹی آف لائف‘‘ فراہم نہیں کر سکتا چنانچہ یہ اپنی فیلڈ چھوڑ کر سی ایس ایس کرتے ہیں‘ فارن سروس‘ پولیس‘ ڈی ایم جی اور کسٹم میں چلے جاتے ہیں اور ڈاکٹر اور انجینئر سے بہتر زندگی ’’انجوائے‘‘ کرتے ہیں۔ دو‘ یہ لوگ اس ملک میں شفٹ ہو جاتے ہیں جہاں ان کے شعبے اور ٹیلنٹ کی زیادہ قدر ہوتی ہے لیکن یہ دونوں صورتیں ملک کیلئے خطرناک ہیں کیونکہ ایک ڈاکٹر اور انجینئر کی تعلیم پر ملک کے تیس سے چالیس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور اگر یہ لوگ یہ رقم ملک کو پے بیک نہیں کرتے تو یہ قومی اور ملی نقصان ہے چنانچہ حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ اس معاملے میں تین چار بڑے اقدامات کی فوری ضرورت ہے ۔ حکومت کو چاہئے یہ انجینئرز‘ ڈاکٹرز‘ کمپیوٹر ایکسپرٹس اور سائنس دانوں کے سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحان دینے پر پابندی لگا دے۔ ان لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد صرف اورصرف اپنے شعبے میں رہیں جبکہ سی ایس ایس کیلئے شعبوں کی ڈویژن کر دی جائیں مثلاً فارن سروس کیلئے انٹرنیشنل ریلیشنز‘ ڈی ایم جی کیلئے مینجمنٹ سائنس‘ پولیس کیلئے لاء اینڈ مینجمنٹ اور سیکرٹ سروسز کیلئے آفس مینجمنٹ کے مضامین میں ایم اے لازمی قرار دے دیا جائے تا کہ ان شعبوں کیلئے ماہر نوجوان سامنے آ سکیں جبکہ ڈاکٹرز اور انجینئرز صرف اپنے شعبوں میں خدمات سر انجام دیں۔

ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ ٹیلنٹ مہاجر پرندوں کی طرح ہوتا ہے‘ یہ عموماً ان زمینوں کا رخ کرتا ہے جہاں اسے کھلا رزق ملتا ہے لہٰذاپھرہم اپنے پروفیشنلز کو ملک کے اندر زیادہ سہولتیں اور بھاری تنخواہیں دیں تا کہ یہ ہجرت یا دوسرے شعبوں کا رخ کرنے کی بجائے دل جمعی کے ساتھ کام کریں یا پھر ہم ان لوگوں کو ملک سے باہر بھجوانے کی کوئی جامع حکومتی پالیسی بنا لیں۔ یہ دونوں آپشنز ’’ورک ایبل‘‘ ہیں‘ حکومت اگر ملک کے ہر شہری کی طبی ذمہ داری اٹھا لے‘ ہنگامی بنیادوں پر ہسپتالوں کا معیار بلند کیا جائے‘ ڈاکٹروں کی تنخواہیں پانچ گنا بڑھا دی جائیں‘ انہیں سرکاری پلاٹ اور ان پلاٹس پر مکان بنانے کی سہولت دی جائے‘ ان کے بچوں کیلئے تعلیم مفت کر دی جائے‘ انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی سہولت فراہم کر دی

جائے اور حکومت میڈیکل کالج سے فارغ ہونے والے ہر ڈاکٹر کو نوکری کی فراہمی یقینی بنا دے توپاکستان کے عوام کے دکھ بھی کم ہو سکتے ہیں اور ہم میڈیکل کے شعبے کے برین ڈرین سے بھی بچ سکتے ہیں۔ ہم یہی ماڈل انجینئرنگ کے شعبے میں بھی ٹرائی کر سکتے ہیں‘ ہم ہر ڈاکٹر اور ہر انجینئر کا شروع ہی میں ’’لائف شیڈول‘‘ طے کر دیں کہ کس ڈاکٹر نے آگے چل کر کس شعبے میں مہارت حاصل کرنی ہے‘ اس نے کتنے مریض دیکھنے ہیں اورکس انجینئر نے انجینئرنگ کے کس شعبے میں آگے بڑھنا ہے اور اس نے زندگی میں کون کون سا منصوبہ مکمل کرنا ہے‘ ہم یہ سب کچھ ان کے کیرئر کے ابتدائی ماہ ہی میں طے کر سکتے ہیں اور اسے کمپیوٹرائز بھی کر سکتے ہیں۔ یہ ترجیحات آگے چل کر ان کی ’’اے سی آر‘‘ بن جائے‘ ڈاکٹر اور انجینئر جوں جوں اس شیڈول کے مطابق آگے بڑھتے رہیں‘ انہیں ایک خود کار نظام کے تحت ترقی ملتی رہے یہاں تک کہ وہ اپنے شعبے کے سربراہ بن جائیں۔ ہم اگر کسی سیاسی مصلحت کی وجہ سے یہ ماڈل نہیں اپنا سکتے ہیں تو پھر ہمارے پاس دوسرا آپشن بچتا ہے‘ ہم دوسرے ممالک کیلئے ٹیلنٹ کی فیکٹری بن جائیں‘ افرادی قوت کی ایکسپورٹ کے باقاعدہ رولزطے کریں‘ ہمارے نوجوان یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کریں‘ اس کے بعد انہیں جس ملک میں نوکری ملتی ہے‘ یہ لوگ وہاں شفٹ ہو جائیں تاہم یہ وہ اخراجات ’’پے بیک‘‘ کرنے کے پابند ہوں جو تعلیم کے دوران ملک نے ان پرخرچ کئے تھے۔ حکومت سرکاری سطح پر دوسرے ممالک کو ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور دوسرے پروفیشنلز فراہم کرنے کے ایگریمنٹ بھی کر سکتی ہے۔ اگر میکسیکو کو چار ہزار ڈاکٹرز کی ضرورت ہے تو حکومت میکسیکو کے ساتھ ایگریمنٹ کرے اور میکسیکو کی ضرورت کے مطابق انہیں چار ہزار ڈاکٹر زتیار کر کے دے دے۔ اس سے ملک اور طالب علموں کویہ فائدہ ہو گا کہ ملک بین الاقوامی ’’ٹرینڈز‘‘ کے مطابق اپنے تعلیمی اداروں کا معیار بڑھا سکے گا‘ ملک کے پاس ’’ایکسپورٹ‘‘ شدہ پروفیشنل کا پورا ڈیٹا ہو گا‘ ملک پروفیشنلز پر خرچ ہونے والا سرمایہ بھی واپس حاصل کر سکے گا اور طالب علموں کی پڑھائی کے دوران گائیڈ لائن بھی مل جائے گی۔ انہیں معلوم ہو گا انہوں نے آگے چل کر ہارٹ

سرجری کا شعبہ منتخب کرنا ہے یا انہوں نے پہاڑی علاقوں میں پل بنانے ہیں۔ یہ لوگ بے روزگاری کے اندیشے سے بھی نکل جائیں گے‘ یہ لوگ اپنی فیملی لائف کی منصوبہ بندی بھی کر سکیں گے اور یہ لوگ جھوٹ بولنے اور حکومت کو دھوکہ دینے سے بھی بچ جائیں گے۔

آپ برین ڈرین سے جڑا دوسرا ایشو بھی ملاحظہ کیجئے۔ ہماری حکومت کی ساری فیاضی زیادہ نمبرز اور اعلیٰ پوزیشنیں حاصل کرنے والے طالب علموں تک محدود ہے۔ وہ طالب علم جو میٹرک میں آٹھ‘ ساڑھے آٹھ سو نمبر حاصل کر لیتا ہے یا وہ جواو اور اے لیول میں دس اے حاصل کر لیتا ہے حکومت فوراً گلدستہ لے کر اس کے گھر پہنچ جاتی ہے اور اس پر خزانوں کے سارے دروازے کھول دیتی ہے۔ یہ اچھا ٹرینڈ ہے لیکن یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اعلیٰ پوزیشنیں حاصل کرنے والے طالب علم زیادہ عرصہ تک پاکستانی نہیں رہتے۔ ہم آج گلوبل مارکیٹ میں زندہ ہیں اور دنیا کے جس کونے میں بھی کوئی آؤٹ سٹینڈنگ نوجوان پیدا ہوتا ہے یہ مارکیٹ اسے فوراًاچک لیتی ہے چنانچہ یہ لوگ چند برسوں میں امریکن یا یورپین شہری بن جاتے ہیں جبکہ ملک میں صرف وہ نوجوان رہ جاتے ہیں جو کسی وجہ سے زیادہ یا اعلیٰ پوزیشن حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ اوسط درجے کے طالب علم ہی دراصل اصلی پاکستانی ہوتے ہیں کیونکہ یہی آگے چل کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں لہٰذا حکومت کو ذہین ترین طلب علموں کے ساتھ ساتھ ان ’’ایوریج سٹوڈنٹس‘‘ پر بھی توجہ دینی چاہئے کیونکہ یہ ملک کا اصل اثاثہ ہیں‘ یہ بڑی زیادتی ہے ہم ان لوگوں کے قدموں میں بچھ جاتے ہیں جنہوں نے پر نکلتے ہی شاخ سے اڑ جانا ہے اور ان لوگوں سے ہاتھ تک نہیں ملاتے جو آخری سانس تک اس ملک میں رہیں گے۔ دنیامیں اعلیٰ پوزیشن ہولڈرز ترقی نہیں کرتے ‘ ایوریج سٹوڈنٹس کرتے ہیں۔ آپ بل گیٹس کی مثال لیں۔ بل گیٹس یونیورسٹی کا نالائق ترین طالب علم تھا‘ یونیورسٹی نے اسے نالائقی کی وجہ سے نکال دیا تھا لیکن آج دنیا کی دو سو بڑی یونیورسٹیوں کے آؤٹ سٹینڈنگ طالب علم ماضی کے اس نالائق سٹوڈنٹ کے ملازم ہیں لہٰذا ہمیں طالب علموں کے معاملے میں معیار کا کینوس ذرا سا وسیع کرناچاہیے۔ ہمیں ان طالب علموں کو بھی پش کرناچاہیے جو آگے چل کر بل گیٹس بن سکتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…