ڈھاکا(آئی این پی) بنگلہ دیش پریمیئر لیگ پر جوئے کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، پولیس کی جانب سے50 افراد کو حراست میں لیا گیا، چار پاکستانی اور تین بھارتی بھی شامل تھے، ایک انڈین کو ڈی پورٹ کردیا گیا، معروف برطانوی بیٹنگ سائٹ سمیت 12 ویب سائٹس کو بلاک کردیا گیا۔دوسری جانب فرنچائز مالکان نقصان کا رونا رونے لگے، اکثریت نے ایونٹ میں سرمایہ کاری کی وجہ کھیل سے محبت کو قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق بنگلہ دیش پریمیئر لیگ اور اس سے قبل انگلینڈ سے ہوم سیریز میں کانٹر ٹیررازم اینڈ کرائم یونٹ نے 50 جواریوں کو حراست میں لیا، ان میں تین بھارتی اور چار پاکستانی باشندوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر محمد نجم الاسلام نے کہاکہ ہم نے 50 کے قریب جواریوں کو گرفتار کیا تاہم بعدمیں سوائے ایک بھارتی باشندے سب کو ضمانت پر رہا کردیا گیا، مذکورہ بھارتی باشندے کو ڈی پورٹ کرنے کیلیے ہائی کمیشن کے سپرد کردیا۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ملکی کرکٹ بورڈ کے اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے فراہم کردہ فہرست میں شامل 12 ایسی ویب سائٹس کو بلاک کردیا گیا جو غیرقانونی جوئے کا سبب بن رہی تھیں۔ان میں انگلینڈ کی ایک معروف بیٹنگ سائٹ بھی شامل ہے جس کی ملکیت انگلش پریمیئر لیگ فٹبال کلب اسٹاک سٹی کی مالک فیملی کے پاس ہے۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ، کبڈی ورلڈ کپ اور ایسے انٹرنیشنل اسپورٹس جو بنگلہ دیش میں ٹی وی پر براہ راست دکھائے جاتے ہیں ان کے دوران اس ویب سائٹ کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔دوسری جانب بی پی ایل کی تمام 7 فرنچائزز نے دعوی کیاکہ انھیں لیگ سے کوئی مالی فائدہ نہیں ہوا،چٹاگانگ کنگز کے مالک عبدالواحد نے کہاکہ کاروبار کے نقطہ نظر سے یہ منافع بخش نہیں، ہم تو کھیل کی محبت میں یہاں پر موجود ہیں۔
چیمپئن ڈھاکا ڈائنامائٹس کے چیف ایگزیکٹیو عبد نظام نے کہاکہ ایونٹ سے فوری منافع حاصل نہیں ہونا ہمیں صبر کا دامن تھامنا ہوگا، ہماری اس ایونٹ میں دلچسپی اس لیے بھی رہی کہ یہ ہمارے سی ایس آر (کارپوریٹ سماجی ذمہ داری) کے لیے اچھا ہے، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ملکی بزنس اتھارٹیز ان کی اس انویسٹمنٹ کو سی ایس آر کے طور پر قبول کریں گی تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں چار پاکستانی اور تین بھارتی گرفتار ، شرمناک وجہ سامنے آگئی
17
دسمبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں