لاہور ( این این آئی) پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف رواں دورے میں آسٹریلیا اورروایتی حریف بھارت کی تھوڑی مدد سے ٹیسٹ کی درجہ بندی میں سرفہرست آنے کا نادر موقع ہے۔پاکستان ٹیم اس وقت دس بڑی ٹیموں کی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر موجود ہے اور بھارت سے ایک پوائنٹ کے فرق سے پیچھے ہے جبکہ 28سال قبل شروع ہونے والے اس سلسلے میں پہلی پوزیشن پر مختصر وقت کے لیے براجمان ہوئی تھی۔پاکستان کو آسٹریلیا سے پہلی پوزیشن چھیننے کے لیے انگلینڈ کو ان کی سرزمین میں شکست دینا کافی نہیں ہوگا جہاں اسمتھ کی ٹیم پچھلے چار ماہ سے راج کررہی ہے بلکہ اس کے لیے آسٹریلیا کی مدد درکار ہوگی جو سری لنکا کے خلاف 3ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں مصروف ہے۔پاکستان اس وقت تک نمبر ون نہیں بن سکتا جب تک وہ انگلینڈ کو نہیں ہراتا جبکہ آسٹریلیا کی ٹیم اپنے نسبتاً کمزور حریف سری لنکا سے شکست نہیں کھاتی۔اس وقت سرفہرست چار ٹیمیں پہلے نمبر کے لیے زور لگا رہی ہیں۔ درجہ بندی میں آسٹریلیا 116پوائنٹس کے ساتھ پہلے، بھارت 112نمبر کے ساتھ دوسرے، پاکستان 111پوائنٹس کے ساتھ تیسری پوزیشن پر ہے اور انگلینڈ 108پوائنٹس کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب ہیں اور پہلی پوزیشن کے لیے سخت مقابلے میں شریک ہیں۔آسٹریلیا کو پہلی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے سری لنکا سے جیت چاہیے قطع نظر اس کے کہ پاکستان اور انگلینڈ جبکہ بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان جاری سیریز کا جو بھی نتیجہ ہو۔اگر وہ ساتویں نمبر پر موجود سری لنکا کو 0-2یا اس سے بہتر مارجن سے شکست دیتے ہیں تو ان کے پوائنٹس 118سے نیچے نہیں ہوں گے جبکہ سری لنکا اگر 0-1کے مارجن سے بھی جیت جائے تو آسٹریلوی ٹیم کے پوائنٹس گر کر 111 ہوجائیں گے۔بھارت پوائنٹس ٹیبل پر آسٹریلیا سے زیادہ دور نہیں لیکن پاکستان کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ ہے تاہم پہلی پوزیشن کے لیے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی کارکردگی بھی اثر انداز ہوگی۔بھارت کو پہلی پوزیشن کے لیے ویسٹ انڈیز کو نہ صرف وائٹ واش کرنا ہے بلکہ آسٹریلیا کی سری لنکا سے 0-1کی شکست کی امیدیں بھی رکھنی ہیں اور پاکستان انگلینڈ کی سیریز برابری پر ختم ہونا بھی ضروری ہے۔0-3کی شکست یا اس سے بہتر کی صورت میں وہ موجودہ 112 پوائنٹس برقرار رکھ پائیں گے جبکہ 1-3یا 1-2کی صورت میں بھی پوائنٹس گر جائیں گے اور 110پر آئیں گے۔دوسری صورت میں 1-3کی شکست پر ہندوستان کے پوائنٹس 100ہوجائیں گے۔پاکستان لارڈز میں انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں کامیابی اور دوسرے میں ناکامی کے بعد بقیہ میچوں میں جیتنا چاہے گا تاکہ پہلی پوزیشن حاصل کی جائے اور اگر انہوں نے ایسا کچھ کیا اور آسٹریلیا کو سری لنکا سے شکست ہوئی تو ہندوستان اور ویسٹ انڈیز کے نتیجے کا زیادہ اثر نہیں ہوگا اور پاکستان نمبر ون پوزیشن پر براجمان ہوگا۔اس کی وجہ یہ ہے کیونکہ ویسٹ انڈیز کی پوزیشن انگلینڈ کے مقابلے میں چار درجے نیچے ہے اس لیے ان کے خلاف ہندوستان کی جیت کا فائدہ تیسری ٹیم کی چوتھے درجے کی انگلینڈ سے کامیابی کے مقابلے میں کم بونس پوائنٹس کی صورت میں ملے گا۔یہ فرق بہت اہم صورت اختیار کرگئی ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت میں اب صرف 11پوائنٹس کا فرق نظر آرہا ہے۔دوسری جانب انگلینڈ درجہ بندی میں چوتھے نمبر پر موجود ہے لیکن پاکستان یا بھارت سے 16میچ زیادہ اور آسٹریلیا سے 4میچ زیادہ کھیلے ہیں اس لیے پاکستان کے مقابلے میں ان کے لیے پہلی پوزیشن حاصل کرنا خاصامشکل ہے۔مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان ٹیم کو اپنے اگلے دومیچوں میں کامیابی کے ساتھ آسٹریلیا کی شکست کا انتظار کرنا ہے جبکہ انگلینڈ کو سرفہرست بننے کے لیے ان سب کے باوجود ویسٹ انڈیز سے یہ امیدیں بھی وابستہ کرنی ہیں کہ وہ اپنے سے کئی گنا مضبوط ہندوستان کو کم از اکم ایک میچ میں ہرائے۔موجودہ ٹیسٹ درجہ بندی جس کو ابتدائی طور پر آئی سی سی ٹیسٹ چمپیئن شپ کہا جاتا تھا, میں 2003 سے بنگلہ دیش اور زمبابوے سمیت سرفہرست دس ٹیموں کی کارکردگی کی بنیاد پراعداد وشمار جمع کئے جاتے ہیں۔ٹیسٹ درجہ بندی کے 157مہینوں کی تاریخ میں تین ٹیموں کی حکمرانی رہی ہے، آسٹریلیا تین دفعہ نمبر ایک پوزیشن پر رہی جس کا مجموعی دورانیہ 81مہینے یا دورانیے کا 51فی صد ان کے نام رہا، جنوبی افریقہ بھی تین دفعہ اس پوزیشن میں رہی اور مجموعی طورپر 42مہینے بنتے ہیں اور ہندوستان دودفعہ یہ اعزازحاصل کرنے میں کامیاب ہوا لیکن ان کا دورانیہ 21مہینوں پر مشتمل تھا۔انگلینڈ ایک دفعہ پورے سال کے عالمی نمبر ایک ٹیسٹ ٹیم رہی تھی، انگلینڈ نے اگست 2011ء سے اگست 2012ء تک اپنی برتری ثابت کی تھی۔پاکستان 2003ء سے متحرک اس ٹیسٹ درجہ بندی کی پہلی پوزیشن کو کبھی بھی حاصل نہیں کرپایا۔پاکستان نے تین دہائی پہلے سرفہرست ٹیم کا سہرا سجایا تھا، ٹیسٹ ٹیموں کی درجہ بندی کے دور سے قبل ایک دفعہ حاصل ہونے والا وہ عروج صرف دومہینوں کے لیے تھا۔آئی سی سی نے حال ہی میں 1952ء کے نتائج تک پہنچنے کے لیے ٹیسٹ درجہ بندی کے رواں نظام کا اطلاق کیا تھا باوجود اس کے کہ دستیاب اعداد و شمار ٹیموں کے محدود مقابلوں کی وجہ سے حساب کتاب کے مقاصد کے لئے ناکافی تصور کئے جاتے ہیں ۔1952ء سے 2003ء کے عرصے میں پاکستان کو سرفہرست ٹیموں میں تصور کیا جاتا تھا جبکہ اگست اور ستمبر 1988ء میں یہ پوزیشن اپنے نام کی۔ان 51سالوں کے دوران دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارت کا ریکارڈ بہتر رہا اور تین دفعہ بہترین پوزیشن حاصل کی جس کو مجموعی دورانیہ 24ماہ بنتا ہے، اپریل 1973ء سے جون 1974ء کے دوران 15ماہ، ستمبر 1980ء سے فروری 1981ء میں 6ماہ اور ستمبر 1995ء سے نومبر 1995ء کے عرصے میں تین ماہ ان کے ریکارڈ میں شامل ہیں جب انھوں نے سرفہرست پوزیشن پر اپنی برتری ثابت کی۔ماضی سے چھٹکارے کا موقع ہر وقت دستیاب ہوتا ہے لیکن اب یہ مصباح الحق اور ان کی ٹیم پر منحصر ہے کہ وہ درجہ بندی پر اپنا ریکارڈ دوبارہ درج کرے۔