چاشت کا وقت تھا، لوگ ایک جنازہ کندھوں پر اٹھائے ہوئے آئے، ورثاء نے آنحضرتؐ سے درخواست کی کہ اس میت کا نمازجنازہ پڑھا دیں۔ حضور اقدسؐ نے پوچھا کہ کیاتمہارے اس صاحب کے ذمہ کوئی قرض تو نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا
صرف دو دینار قرض ہیں۔ حضوراکرمؐ نے خود جنازہ پڑھانے سے انکار کیا اور فرمایا: ’’تم خود ہی اپنے صاحب کا نماز جنازہ پڑھ لو۔‘‘ آنحضورؐ مقروض آدمی کا نماز جنازہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ حضرت علیؓ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ آدمی حضورؐ کی نمازکی برکت سے محروم نہ ہو جائے، جلدی سے خدمت اقدسؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ وہ دو دینار میرے ذمہ ہیں، (میں ادا کروں گا) میت اس سے بری الذمہ ہے۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے میت کا نمازجنازہ پڑھایا۔ پھر حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’جزاک اللہ خیراً‘‘ اللہ تعالیٰ تجھے بھی رہن سے آزاد کرے جس طرح تم نے اپنے بھائی کو آزادی دلائی، ہر میت اپنے قرض کے سبب رہن رکھا ہوا ہوتا ہے اور جو شخص کسی میت کو اس سے چھڑائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اس کے دین سے آزادی دلائیں گے۔