اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)اہل بیتؓ سے محبت مسلمانوں کے عقیدے کا بنیادی جزو ہے، حضورؐ کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ‘‘۔ حضرت علیؓ کی حکمت ، تدبر اور سیاست نے کئی اہم مواقعوں پر مسلمانوں کی اجتماعیت کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ خلیفہ چہارم کے کئی ایسے فیصلے آج بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے سامنے رکھے جاتے ہیں
اور ان کے تحت فیصلے دئیے جاتے ہیں۔حضرت علیؓ کا ایسا ہی فیصلہ یہاں بیان کیا جا رہا ہے جسے نہ صرف رسول کریمؐ نے برقرار رکھا بلکہ اہل بیت ؓ کی فضیلت اور حکمت سے متعلق ایسا ارشاد فرمایا جو تاقیامت مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ ایک مرتبہ ملک یمن میں چار اشخاص ایک کنوئیں میں گر گئے جو انہوں نے شیر پھنسانے کے لیے کھودا تھا. اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ شیر تو اس کنوئیں میں گر گیا لیکن ان میں سے ایک کا پیر پھسلا اور اس کنوئیں میں گرا اس نے اپنی جان بچانے کے لیے بدحواسی میں دوسرے کی کمر پکڑ لی وہ بھی سنبھل نہ سکا اور گرتے گرتے اس نے تیسرے کی کمر تھام لی،تیسرے نے چوتھے کو پکڑ لیا، غرض چاروں اس میں گر پڑیاور شیر نے ان چاروں کو مار ڈالا.ان مقتولین کےورثاء آمادہ جنگ ہوئے. حضرت علیؓ نے ان کو ہنگامہ و فساد سے روکا اور فرمایا کہ میں فیصلہ کرتا ہوں اگر وہ پسند نہ ہو تو دربارِ رسالت میں جا کر تم اپنامقدمہ پیش کر سکتے ہو، لوگوں نے رضا مندی ظاہر کی.آپؓ نے یہ فیصلہ کیاکہ جن لوگوں نے یہ کنواں کھودا ہے ان کے قبیلوں سے ان مقتولین کے خون بہا کی رقم اس طرح وصول کی جائے کہ ایک پوری ایک ایک تہائی ایک ایک چوتھائی اور ایک آدھی. پہلے مقتولین کے ورثاء کو ایک چوتھائی خون بہا، دوسرے کو تہائی، تیسرے کو نصف اور چوتھے کو پورا خون بہا دلایا، اس لیے کہ پہلے نے اپنے اوپر والے کو ہلاک کیا، دوسرے نے اپنے اوپر والے کو اور تیسرے نے بھی اپنے اوپر والے کو ہلاک کیا،غرض یہ کہ سب نے اپنے اوپر والے کو ہلاکت میں ڈالامگر چوتھے نے کسی کو بھی ہلاکت میں نہ ڈالا بلکہ وہ خود نشانہ بنا. لوگ اس فیصلہ سے راضی نہ ہوئے اور حجۃ الوداع کے موقع پرحضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اس فیصلہ کا مرافعہ (ایپل) عدالت نبویؐ میں پیش کیا، آنحضرتؐ نے اس فیصلہ کو برقرار رکھا اور فرمایا: خدا کاشکر ہے جس نے ہم اہل بیت میں حکمت کو رکھا ہے۔‘‘