کسی شخص کا گدھا زخمی اور ناکارہ ہو گیا۔ اس نے اس کو جنگل میں آوارہ چھوڑ دیا۔ پرند اور مکھیاں اس کی رہی سہی کھال کو نوچتے تھے اور اس کے زخم اور شدید ہوتے گئے کسی راہ گیر کو اس پر رحم آیا اور وہ اسے گھر لے آیا۔
اس کے پاس شیر کی ایک کھال تھی۔ اس نے وہ کھال اس گدھے کے جسم پر ڈال دی اور کھال کا چہرے والا حصہ گدھے کے منہ پر چڑھا دیا۔ اب گدھا بے فکری سے جنگل میں چرنے لگا۔ پرندے، درندے سب اسے شیر سمجھ کر اس سے ڈرنے لگے۔ کوئی نزدیک نہ آتا تھا، اب کیا تھا بے فکری کا چرنا اور جنگل کی بادشاہی۔ گدھے کے زخم بھی اچھے ہو گئے اور خوب موٹا تازہ بھی ہو گیا۔ گدھے کی خرمستی مشہور ہے، جوبن میں آ کے خر مستی نے جو زور کیا تو لگے چاروں طرف ڈھینچوں ڈھینچوں لگانے۔ اس آواز کو سن کر جنگل کے تمام جانوروں میں مشہور ہو گیا کہ یہ کوئی مسخرہ گدھا ہے جو شیر کی کھال زیب تن کرکے آج تک ہمیں دھوکا دیتا رہا اور آخر سب نے جمع ہو کر گدھے کا نقاب اتارا اور آپ کی اصل شکل کو دیکھ کر آپ کو اپنے ٹھکانے پہنچا دیا۔ اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ آج کل بہت سے دشمنان دین بھی مسلمانوں کا بہروپ اختیار کرکے اصلی مسلمان بن بن کر پھر رہے ہیں اور اصل میں وہ کچھ اور ہی ہیں۔ مسلمانوں کو ایسے بہروپیوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ اس قسم کا کوئی بہروپیا اگر حضورؐ کے علم و اختیار، اولیا کرام کی عظمت و وقار یا صحابہ کرامؓ کے فضل و شرف یا امامان دین کی بزرگی و امامت کے خلاف ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگے تو سمجھ جائیے کہ یہ شیر کی کھال میں گدھا ہے۔