نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی کا جنازہ لایا گیا آ پﷺ جنازے کی نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھے اور اپنی عادت کے مطابق حاضرین سے دریافت فرمایا کہ اس میت پر کسی کا قرض تو نہیں ہے؟ حاضرین میں سے ایک صحابی آگے بڑھے اور عرض کیا۔ حضور ﷺ اتنے دینار میرے اس کے ذمے باقی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے میت کے وارث سے دریافت فرمایا، تم اس کا قرض ادا کر دو گے؟
اگر وعدہ کرو تو میں اس کی نماز جنازہ پڑھا دوں گا۔میت کے بیٹے نے کہا ” حضور ﷺ میری کئی ایک سیانی اور کنواری بہنیں بیاہنے کو باقی ہیں میرے پاس تو ان کی شادی کے اخراجات بھی نہیں ہیں میں کہاں سے ادا کر سکوں گا؟ میرے باپ نے تو قرض کے سوا کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے ، چونکہ قرض حق العباد ہے اس لئے کسی صورت میں بھی معاف نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسے ادا نہ کر دیا جائے یا قرض دینے والا معاف نہ کر دے آپ پیچھے ہٹنے لگے کیونکہ یہ آپ کی عادت شریفہ تھی کہ مقروض کی نماز جنازہ ادا نہیں فرماتے تھے ۔ آپ نے اعلان فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اس کا قرض ادا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ مجمع دم بخود تھا کیونکہ محنت کش اور غریب عوام کا مجمع تھا مجبوراً آپ ﷺ پیچھے ہٹنے لگے اور فرمایا کہ تم لوگ نماز پڑھا دو یہ ایک بہت بڑی سعادت تھی جس سے میت محروم ہو رہی تھی کہ ایک آواز آئی۔ حضور ﷺ میں اس کا قرض اپنے ذمہ لیتا ہوں پیوند زدہ کپڑے، غبار آلود بال شیر خدا حضرت علی مرتضٰیؓ کھڑے تھے حضورﷺ! میں محنت مزدوری کر کے میت کا قرض ادا کر سکتا ہوں۔۔۔۔ آپ ﷺ نماز جنازہ ادا فرمائیں۔ حضور ﷺ مسکرا کر آگے بڑھے کہ آخر شیر خدا شیر خدا ہی ہوتا ہے۔ پہاڑ ٹل تو ٹل جائے یہ اپنے وعدے سے نہیں ہٹ سکتا۔ نماز جنازہ ادا فرمائی اور میت کے ساتھ ساتھ علی کرم اللہ وجہہ کے لئے بھی دعا فرمائی۔