ایک یہودی کا گزر مسلمانوں کے ایک قریہ سے ہوا ۔ اس کے دل میں ایک ترکیب آئی کہ کیوں نہ میں انہیں ان کے دین کے تعلق سے ان کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کروں؟ اور انہیں ان کے علماء سے بد ظن کردوں۔ قریہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ایک چرواہے سے ملاقات ہوئی ۔ یہودی نے سوچا کہ کیوں نہ اسی جاہل سے اس کی ابتداء کی جائے اور اس چرواہے کے دل ودماغ میں اسلام کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کیا جائے۔
یہودی نے اس چرواہے سے ملاقات کی اور کہا کہ میں ایک مسلمان مسافر ہوں۔ باتوں ہی باتوں میں یہودی کہنے لگا کہ ہم مسلمان قرآن مجید کو یاد کرنے کے لئے کتنی مشقت اٹھاتے ہیں جب کہ یہ قرآن تیس اجزاء پر مشتمل ہے۔ لیکن قرآن میں بیشمار آیات متشابہ ہیں جو ایک جیسی ہی ہیں۔ بار بار دہرانے کی کیا ضرورت ہے ۔ اگر متشابہات کو نکال دیاجائے تو قرآن اور بھی مختصر ہوجائے گا اور یاد کرنے میں بہت آسانی بھی ہوجائے گی۔ چرواہا اس کی بات غور سے سنتا رہا اور خاموش رہا ۔ جب یہودی کی بات مکمل ہوئی تو چرواہے نے کہا کہ واہ تمہار خیال تو بہت اچھا ہے ۔ یہودی دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ یہ چرواہا میرے جال میں آگیا ہے ۔پھر اچانک چرواہے نے کہا کہ میرا ایک سوال ہے؟ یہودی نے کہا : پوچھئے تو صحیح؟ تم چاہتے ہوکہ قرآن میں جو متشابہات یا تکرار ہے اس کو نکال دینا چاہئے..؟ہاں بالکل میرا یہی خیال ہے کہ جو آیت ایک مرتبہ سے زیادہ ہو اس کو قرآن سے خارج کردیا جائے تو قرآن مختصر ہوجائے گا اور یاد کرنے میں آسانی بھی ہوگی۔چرواہے نے کہا: مجھے ایسا لگتا ہے کہ تمہارے بدن پر بھی بعض اعضاء ایک سے زیادہ ہیں جو تکرار پیدا کررہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے..کیوں نہ تمہارے دو ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ کو کاٹ دیا جائے۔
دو پیروں میں سے ایک پیر ہی رکھا جائے اس لئے کہ یہ تکرار ہے۔ دو دو آنکھوں کی کیا ضرورت ہے کام تو ایک آنکھ سے بھی پورا ہوسکتا ہے کیوں نہ تمہاری ایک آنکھ بھی نکال دی جائے۔ دو کان اور دو گردوں کی کیا ضرورت ہے اس میں بھی تکرار ہے ۔ اگر ان تمام تکرار والے اعضاء کو نکال دیا جائے تو تمہار ا بدن بھی ہلکہ ہوجائے گا ۔ اور غذا کی مقدار بھی کم ہوجائے گی اور تمہیں زیادہ جدوجہد کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی، کیا خیال ہے..؟ یہودی اپنا سیاہ منہ لیکر فورا اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی راہ لی ۔ زندگی بھر یہی سوچتا رہا کہ جب—-مسلمانوں کے چرواہے کی یہ فکر ہے تو ان کےعلماءکے افکار کیسے ہوں گے..؟