ایک بوڑھا کسان اپنے جوان پوتے کے ساتھ پہاڑ پر رہتا تھا‘ دادا روزانہ صبح سویرے اٹھ جاتا اور کچن کی میز پر بیٹھ کر کتاب کا مطالعہ کرتا۔ ایک دن پوتے نے دادا سے سوال کیا ”دادا جی میں آپ کی طرح کتاب پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا اور اگر سمجھ آ جائے تو میں کتاب بند کرنے کے فوراً بعد پڑھا ہوا بھی بھول جاتا ہوں‘ کتاب پڑھنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟“۔
دادا نے پوتے کا سوال سنا‘ مسکرایا‘ آتش دان سے کوئلے کی ٹوکری اٹھائی‘ پوتے کی طرف مڑا اور اس سے کہا ”کوئلوں سے بھری یہ ٹوکری دریا کے پاس لے جاﺅ‘ خالی کرو اور پانی سے بھری ٹوکری مجھے لا کر دو“۔ پوتے نے دادا کی ہدایت پر عمل کیا مگر گھر پہنچنے سے قبل ٹوکری سے سارا پانی بہہ گیا۔ دادا نے قہقہہ لگایااور بولا ”اگلی بار تمہیں تھوڑا جلدی آنا ہو گا“ یہ کہتے ہوئے دادا نے پوتے کو دوبارہ دریا پربھیج دیا‘ پوتا اس دفعہ تیزی سے بھاگا مگر گھر پہنچنے سے پہلے ٹوکری پھر خالی ہو گئی‘ نوجوان نے دادا سے عرض کیا ” دادا جی ٹوکری میں پانی لاناممکن نہیں‘ ‘۔ نوجوان گیا ‘ اس نے ٹوکری کی بجائے بالٹی اٹھا لی۔ دادا نے کہا مجھے پانی کی بالٹی نہیں‘ مجھے پانی کی بھری ٹوکری چاہیے‘ بس تم زیادہ محنت نہیں کر رہے‘ تیزی سے جاﺅ اور تیزی بھاگ کر واپس آﺅ ‘ پوتا پھر ٹوکری لے کر نکل گیا‘ دادا پوتے کی کوشش دیکھنے دروازے سے باہر آگیا‘ پوتا جتنی تیز بھاگ سکتا تھا وہ بھاگا‘ دریا کے پاس گیا‘ ٹوکری کو پانی میں ڈبویا اورتیزی بھاگنا شروع کر دیا‘نتیجہ اس بار بھی وہی نکلا‘وہ گھر پہنچا تو ٹوکری خالی تھی۔پوتے نے پھولی سانس کے ساتھ دادا سے عرض کیا ”دیکھا دادا جان! یہ بے سود ہے“۔ دادا نے مسکرا کر پوچھا” تمہارے خیال میں یہ بے فائدہ ہے لیکن تم ٹوکری کی طرف دیکھو“۔ نوجوان نے ٹوکری کی طرف دیکھا اور اسے پہلی بار محسوس ہوا ٹوکری کے اندر جمی کوئلے کی کالک دھل چکی ہے اور یہ اندر اور باہردونوں طرف سے صاف ہو چکی ہے ۔دادا پوتے سے مخاطب ہوا ”بیٹا جب تم کتاب پڑھتے ہو توتم کچھ سمجھو یانہ سمجھو لیکن جب تم پڑھتے ہو تو تم اندر اور باہر دونوں طرف سے صاف ہو جاتے ہو بالکل اس ٹوکری کی طرح۔