ایک دفعہ ایک بادشاہ مع وزیر کے جنگل کی سیر کو گیا، ایک بوڑھے کو دیکھا کہ باغ میں گٹھلیاں بورہا ہے۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اس سے پوچھو کیا بورہا ہے۔ جب وزیر نے پوچھا تو اس نے کہا کہ کھجور کی گٹھلیاں بورہا ہوں، بادشاہ نے پوچھا کہ یہ کتنے برس میں پھل لے آئیں گے۔بوڑھے نے کہا کہ بیس پچیس سال کے بعد بادشاہ ہنسا کہ بوڑھے میاں کے پیر قبر میں لٹک رہے ہیں اور بیس پچیس سال آئندہ کا سامان کررہے ہیں۔
وزیر نے یہ بات بوڑھے سے کہی تو وہ کہنے لگا کہ اگر سب باغ لگانے والے یہی سوچا کرتے جو تم سوچتے ہو تو آج تم کو ایک کھجور بھی نصیب نہ ہوتی۔ میاں! دنیا کا کام یوں ہی چلتا ہے کہ کوئی لگاتا ہے، کوئی کھاتا ہے۔ بادشاہ نے یہ معقول جواب سن کر کہا نَعَم”بے شک صحیح ہے“- بادشاہ کا یہ قاعدہ تھا کہ جس شخص کی بات پر “نَعَم” کہہ دیا اس کو ایک ہزار دینار دئیے جائیں۔ چنانچہ وزیر نے اس وقت ایک ہزار دینار کا توڑا اس کے حوالے کیا۔ اس کے بعد دونوں آگے چلنے لگے۔ تو بوڑھے نے کہا کہ میری ایک بات سنتے جائو- وزیر نے کہا کہو کیا بات ہے؟بوڑھے نے کہا کہ کسی کا بیج تو بیس پچیس سال میں پھل لاتا ہے لیکن میرے بیج نے ایک ہی ساعت میں پھل لے کے آیا۔ بادشاہ نے پھر کہا “نَعَم” ۔ وزیر نے ایک ہزار دینار کا دوسرا توڑا اس کے حوالے کیا۔ پھر آگے چلنے لگے تو بوڑھے نے کہا کہ چلتے چلتے میری ایک اور بات سنیے اور وہ بات یہ ہے کہ کسی کا بیج تو سال میں ایک مرتبہ پھل لاتا ہے اور میرا بیج تو ایک ہی ساعت میں دو مرتبہ پھل لے آیا۔ بادشاہ نے خوش ہوکر پھر کہا نَعَم وزیر نے ایک ہزار دینار کا تیسرا توڑا بوڑھے میاں کو حوالے کیا۔ وزیر نے بادشاہ سے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت! ہمیں یہاں سے اب جلدی جانا چاہیے کیونکہ ہم نے اس بوڑھے کو بے وقوف سمجھا تھا لیکن وہ بہت عقلمند نکلا۔ باتوں باتوں میں ہم کو لوٹ لے گا