ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

برطانوی وزیراعظم چرچل آخر کیوں قائداعظم محمد علی جناح ؒکے حامی اور بھارت کے مخالف تھے؟ 1947کے ایسے واقعات جو آپ نے کبھی نہیں پڑھے ہونگے،امریکی جریدے کی رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات

datetime 13  اگست‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد اس خطے میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنا ایک الگ وطن حاصل کیا تاہم یہ کسی جنگ وجدل سے حاصل کردہ ملک نہیں بلکہ قائداعظمؒ کی قیادت میں مسلمانان برصغیر کی ایک بے مثال سیاسی جدوجہد اور لاکھوں قربانیوں کا ثمر تھا۔ برصغیر پاک و ہند پر برطانوی راج قائم تھا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ دنیا بھر

میں پھیلی ہوئی اپنی نو آبادیات سے جان چھڑانے کی پالیسی پر کاربند تھا۔ ہندوستان میں کانگرس ہندوئوں جماعت کے طور پر اپنا تشخص قائم کر چکی تھی اور اس کی قیادت گاندھی کر رہے تھے جبکہ مسلمانان برصغیر قائداعظم ؒ کی قیادت میں مسلمانوں کے ایک الگ وطن کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ ان سب میں انگریز جو کہ یہاں کے حاکم تھے وہ بھی اس علاقے کو چھوڑنا تو چاہتے تھے تاہم ان کی اپنی چالیں تھیں۔ اسوقت کے برطانوی وزیراعظم چرچل قائداعظم محمد علی جناح کے حامی اور پاکستان کے مطالبے کو ذہنی اور قلبی طر پر تسلیم کر چکے تھے جبکہ وہ جانتے تھے کہ گاندھی کی متحدہ ہندوستان کی ڈیمانڈ دراصل یہاں ہندو راج قائم کرنے اورسیکولر بھارت کا نعرہ دراصل فراڈ ہے۔ اس حوالے سے امریکی جریدے نے بھی اپنی رپورٹ میں چند تفاصیل کا ذکر کیا ہے جسے پاکستان کے مؤقر قومی اخبار روزنامہ دنیا نے اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا ہے۔ روزنامہ دنیا کی رپورٹ کے مطابق قائداعظمؒ کی کوششوں سے برطانیہ اگست 1948ء تک پاکستان کو آزادی دینے کے حق میں تھا، مگر ماؤنٹ بیٹن نے عجلت میں مسلمانوں پر ”چُھری“ چلا دی۔ ماؤنٹ بیٹن اور دوسرے انگریزوں نے مسلمانوں کو گروپوں میں تقسیم کیا، یہ محض اتفاق نہ تھا بلکہ پورے برطانوی سسٹم کی یہی منشا تھی۔امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کے مطابق ماؤنٹ بیٹن کو 15 اگست کو قیامِ پاکستان کے

عمل میں تیزی پیدا کرنے کے لیے ہی بھیجا گیا تھا۔ ماؤنٹ بیٹن برطانیہ میں عجلت میں کام کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ پرنس فلپ کے انکل ماؤنٹ بیٹن عرف ڈکی بعد ازاں آئرش ری پبلک آرمی کے بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد نہرو پہلے بھارتی وزیرِاعظم بنے اور جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل۔ نہرو نے 1946ء میں ایک صحافی سے کہا تھا کہ

”بھارت میں کسی قسم کا فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہو گا، جبکہ قائدِاعظم محمد علی جناحؒ قیامِ پاکستان کے مطالبے پر قائم تھے۔برطانیہ نے ان کی باتوں کو درست مان لیا تھا۔ بالخصوص مسٹر چرچل قائداعظمؒ کے ساتھی تھے اور ان کی تجاویز کی حمایت کر رہے تھے۔ ہندو رہنما کیمونزم کے قریب تر ہوتے جا رہے تھے جسے برطانیہ اور امریکا میں خطرے کی گھنٹی سمجھا جا رہا تھا۔چرچل سمجھتے تھے

کہ سیکولر یا کیمونزم کی جانب بڑھتے ہوئے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا بہتر اور آسان تھا۔ وہ پاکستانی نظریے اور سوچ کو مغرب کے قریب تر سمجھتے تھے۔ وہ سوشلسٹ بھارت سے قربتیں بڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔برطانوی سلطنت کے اندر پائی جانے والی اس سوچ سے بحران نے جنم لیا کیونکہ ان کا مقصد ہی بحران پیدا کرنا تھا۔ دراصل برطانیہ طویل

عرصہ سے جمہوری روایات کی مزاحمت کر رہا تھا۔ 1660ء سے 1850ء تک تاج برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستان کو محکوم بنا رکھا تھا اور یہ عمل قیامِ پاکستان تک جاری رہا بلکہ 1857ء کی جنگِ آزادی اس مزاحمت کا واضح ثبوت تھی۔ریاستوں میں بھی اس عرصے میں برطانوی حکومت کے خلاف تحریکیں اٹھیں جنہیں بزور طاقت دبا دیا گیا۔ باؤنڈری بظاہر پرامن مزاحمت کے

حامی تھے لیکن تحریکوں کو دبانے کے لئے وہ طاقت کے استعمال کے حامی تھے جس کا لازمی نتیجہ ابھار کی صورت میں نکلا۔بیسویں صدی میں جمہوریت کی آبیاری کے بہت سے مواقع تھے جو بھارت میں تاج برطانیہ نے پس پشت ڈال دیے۔ 1930ء میں جوشی نے آئینی اصلاحات کی تجویز پیش کی۔ وائسرائے کے مطابق اس تجویز کو مان کر ہم خطے میں اچھی جمہوریت بھی قائم کر سکتے تھے

لیکن چرچل اور دوسرے سخت گیر رہنماؤں کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔کئی برطانوی اسے درست نہیں مانتے۔ مسٹر ایٹلی کہتے ہیں کہ ”یہ ان الزامات میں سے ایک ہے جو ہم نے اولڈ بوائے کیخلاف قائم کیے، ان کا اشارہ گاندھی کی طرف تھا۔ برطانوی سیاست دان اس بات سے باخوبی آگاہ تھے کہ ہندوستان میں برطانوی سسٹم کارگر ثابت نہیں ہو رہا لیکن وہ کسی تبدیلی کے حق میں نہ تھے لیکن

اس بات پر بھی متفکر تھے کہ یہ تبدیلی کیسے لائی جائے۔اس طرح ان کے خیالات تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور اس کے نتائج بھی اچھے نہیں نکلے۔ روڈیالڈ اٹلی نے واضح طور پر لکھا کہ ”ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر کمزور کر دیا جائے“۔نیویارک ٹائمز نے اپنے مضمون میں ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی حکمت عملی کو غلط قرار دیا ہے۔ اخبار نویس لکھتا ہے کہ

”ذات پات کا سسٹم ہزاروں سال سے بھارتی تاریخ کا حصہ ہے“ یعنی انڈیا ہزار ہا برس سے خود ہی اس کے شہریوں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ذات پات اور اندرونی تقسیم کا یہ نظام برطانوی دور میں شروع نہیں ہوا لیکن برطانویوں نے بھارت کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ اسی کو مارشل ریس اور کسی کو جرائم پیشہ قبیلہ قرار دے دیا۔1870ء کے بعد سے ذات برادری اور زبان مردم شماری

کے ہر ریکارڈ کا حصہ رہی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد لاجسٹیو اسمبلی نے یورپیوں، سکھوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے الگ الگ سیٹیں مخصوص کیں۔یہی نہیں پسماندہ طبقوں، جاگیرداروں، تاجروں اور زمینداروں سمیت متعدد طبقات اور گروپوں کی بھی نشستیں مخصوص کر دی گئیں۔ اس طرح درحقیقت ان کا مقصد ہندوستانی معاشرے کو مختلف برادریوں، گروہوں اور طبقات میں تقسیم کر کے

اپنا مقصد حاصل کرنا تھا اور ان کا مقصد اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔یہ ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی سوچ کا عملی مظہر تھا۔ اسی طرح انگریزوں نے ہندوؤں اورمسلمانوں میں انتشار ڈالا، انہیں مزید چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کرنے کی بھی سازش کی۔ یہ محض اتفاقیہ بات نہ تھی، اس کے پیچھے برطانوی حکومت کا پورا مینڈیٹ تھا۔ماؤنٹ بیٹن مارچ 1947ء میں بھارت آئے تھے۔

اس وقت برطانوی حکمران جو کچھ برصغیر میں کر سکے تھے، اسے رول بیک کرنا ممکن نہ تھا۔ مذہب، اور فرقہ واریت کی بنیاد پر ہندوؤں اور مسلمانوں میں بھی کئی گروپ تشکیل دئیے جا چکے تھے۔مسلمانوں اور ہندوؤں میں کسی انتشار کے باعث انگریزوں کیخلاف بد اعتمادی کی فضا قائم تھی۔ جس روز ماؤنٹ بیٹن نے بھارت میں قدم رکھا اسی دن پٹنہ میں پولیس نے ہڑتال کر دی۔

جس میں 70 افراد ہلاک اور ہزار افراد زخمی ہوئے۔کلکتہ میں بھی بم دھماکے ہوئے جس میں متعدد افراد ہلاک اور 3 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ امرتسر میں فرقہ وارانہ فسادات میں 360 افراد مارے گئے جبکہ مردان میں فرقہ وارانہ فسادات میں 14 پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔دہلی میں انتہا پسندی کے واقعہ میں 2 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ کوئی غیر معمولی حادثہ نہ تھا۔

ماؤنٹ بیٹن کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے نہ تو افرادی قوت تھی اور نہ ہی دوسرے ذرائع۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہندوستان کے معاملات براہ راست برطانوی حکومت نے سنبھال لیے تھے اور وہ یہاں مزید فوجی دستے یا وسائل بھیجنے پر آمادہ نہ تھے۔ پہلے سے پیدا شدہ بد اعتمادی سے ماؤنٹ بیٹن کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کوئی گروپ ان کے ساتھ نہ تھا۔ قیام امن کے لیے

باؤنڈری فورس بنائی گئی۔ 50 ہزار افراد پر مشتمل یہ دستہ لاکھوں افراد پر کیسے قابو پا سکتا تھا؟برطانوی کنٹرول اور دلچسپی ختم ہونے سے بہت نقصان ہوا۔ یہی سوچ کر ماؤنٹ بیٹن نے جلد از جلد جان چھڑا نے کی کوشش کی۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے لیے نئی سرحدی حد بندی پر کام شروع کر دیا۔اسی کا حوالہ دیتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن نے 16 اگست کو کہا کہ ”ہم تقسیم کے عمل کو ملتوی کر سکتے تھے،

مگر اس صورت میں برطانیہ کو بہت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا“۔اسی لیے ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان سے نکلنے کے لیے اپنی رفتار تیز تر کر دی اور جلد از جلد برطانوی حاکمیت کے خاتمے کی تجویز پر غور شروع کر دیا۔ تاہم یہی سچائی ہے کہ جس تیزی سے برطانیہ نے برصغیر میں اپنی حاکمیت قائم کی، اتنی ہی تیزی سے یہاں نکلنے کی کوشش کی۔اس سے انتظامی خلا پیدا ہوا اور ملک بھر میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ انہیں بچانے والی مشنری دم توڑ چکی تھی۔ شاید مغرب یہی چاہتا تھا۔ اس کا ایک ہی مقصد تھا، اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت سے مالا مال یہ علاقہ کبھی متحد نہ رہ پائے، یہ مقصد تو بہرحال حاصل ہو گیا۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…