چار سال کی عمر میں والد کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ والدہ نے باپ کی ذمہ داریاں بھی اپنے ذمے لے لیں۔ اس بچے کی سمجھ بوجھ کچھ بڑھی تو گھریلو کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹانے لگا۔ ماں کبھی دیر سے واپس آتی تو یہ خود کھانا پکا کر دوسرے بہن بھائیوں کو کھلا دیتا۔ ایک دن ماں نے بھی اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھایا۔ خوش ہو کر اسے گلے سے لگالیا۔ پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا :’’دنیا تیرے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھائے
گی۔‘‘بچے کی چھپی ہوئی صلاحیتیں روز بروز نکھرتی گئیں۔آخر کار اس نے ماں کی آرزو کو سچ کر دکھایا۔ اس نے کھانا پکانے کی مہارت کو مقصد زندگی بنا لیا۔ امریکی کرنل ہر لینڈ سینڈر زکی کہانی کا یہ ڈراپ سین ہے۔ سینڈرز نے ’’کنٹکی‘‘ نامی چھوٹے سے گاؤں میں9ستمبر1890ء میں آنکھ کھولی ۔ گھر میں تو وہ کھانا پکانے کا کام کرتا ہی تھا ،بڑا ہوا تو باہر بھی کام کرنے لگا۔ اس نےKentucky Town میں ایک دکان بنائی۔ وہ یہاں سے مرغیاں سپلائی کرتا تھا۔ آس پاس کے لوگ اس کی سروس سے بہت خوش تھے۔ کاروبار کی روز افزوںترقی اور لوگوں کے خصوصی رجحان نے اس کے لیے فکر وعمل کے نئے دریچے وا کیے۔ 1930ء معاشی بحران کا زمانہ کہلاتا ہے، سینڈرز نے ایک گیس اسٹیشن کے سامنے چھوٹے سے کمرے میں ایک ریسٹورنٹ کھولا۔یہاں یہ تین کام بیک وقت سر انجام دیتا تھا: چیف کک ، کیشیر اور گیس اسٹیشن کا آپریٹر۔ اس ریسٹورنٹ کا نام اس نے Sandars Court Oamp Cafeرکھا۔ Kentuckyکے گورنر روبی لافون نے اس کی خدمات کی بدولت اسے کرنل کا خطاب دیا۔کرنل ہرلینڈ سینڈرز اپنے کاروبار میں مگن اور معیاری اشیا فراہم کرتا رہا۔مسلسل محنت کے باعث ایک ہی سال میں اسے خوب شہرت ملی۔ جگہ کم پڑ گئی۔ اب اس نے دگنی جگہ خریدی۔ اس ریسٹورنٹ میں142نشستوں کا اضافہ کیا۔ نئی تعمیر میں مسافروں کی راحت کا بطور
خاص خیال رکھا۔ پھر اچانک ایک واقعہ پیش آیا اور کہانی گھوم کے پھر صفر پر آکھڑی ہوئی۔ہوا یہ کہ 1939ء میں اچانک ریسٹورنٹ میں آگ بھڑک اٹھی ۔ اس کا سارا سرمایہ جل کر راکھ ہو گیا۔ تاہم کرنل سینڈرز نے ہمت نہ ہارتے ہوئے دوبارہ تعمیر کا فیصلہ کیا اور کام دھیرے دھیرے اپنی نہج پہ آنے لگا۔ 1940ء میں پکوان کی انوکھی ترکیب ’’Original Recipe‘‘تخلیق کی۔ جس سے اس کی شہرت میں کئی چند اضافہ ہوا۔
Sandars Court &Cafeپر عمومی طور پر مسافر ہی آتے جو Kentucky سینڈرز کے گاؤں ’’کاربن ‘‘(corbin) کے رستے فلوریڈا جایا کرتے۔ اس کیفے پر مسافروں کا تانتا بندھا رہتا۔ جس سے کاروبار آسمان کو چھونے لگا۔تندی باد مخالف ایک بار پھر چلی اور کرنل سینڈرز کے کاروبار کا صفایا کر گئی۔1955ء میں Interstate75 موٹروے بنی جو امریکا کی کئی ریاستوں کو آپس میں ملاتی ہے۔یہ موٹروے کاربن گاؤں سے باہر بنی ۔کرنل سینڈر کا ریسٹورنٹ کاربن کے اندر تھا۔اس موٹر وے کے باعث مسافروں کا ریسٹورنٹ کی طرف
آنا اور ٹھہرنا آٹے میں نمک کے برابر ہو گیا۔ اس طرح کرنل سینڈرز اپنا ریسٹورنٹ بیچنے پر مجبور ہوگیا۔ 65 سالہ کرنل سینڈرز اب مالی طور پر بالکل کنگال ہو گیا تھا۔کچھ دنوں تک اس پر سکتہ طاری رہا، لیکن اپنے مقصد کے ساتھ مخلص اور واضح وژن رکھنے کی وجہ سے اسے اس کیفیت سے جان چھڑانے میں دیر نہ لگی۔ وہ اپنے آپ کو مالی طور پر پھر سے مستحکم دیکھنا چاہتا تھا۔ اپنے کاروباری تجربے کی بنا پر اسے یقین تھا
امریکا بھر میں اس کے پاس ریسٹورنٹ مالکان کو چکن فراہم کرنے کاعمدہ موقع موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ’’فرائیڈ چکن پکوان‘‘ کو لوگوں سے متعارف کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس کے لیے وہ چھوٹے اور بڑے ریستورانوں پر گیا۔ انہیں فرائیڈ چکن پکوان کے بارے میں بریفنگ دینے کی کوشش کی ،لیکن لوگ اس کا مذاق اڑاتے اور بعض اوقات اس کو پاگل سمجھتے تھے کہ پوری دنیا میں اپنے فرائیڈ چکن پکوان کو کیسے
پہنچا سکتا ہے!؟ کرنل ڈٹا رہا۔ اس پر یہ دھن سوار ہو گئی کہ وہ کسی طرح کنٹکی فرائیڈ چکن (KFC) کو منظر عام پر لے آئے۔ اس کے لیے اسے پارٹنر کی ضرورت تھی۔وہ ایک ہزار سے زائد لوگوں سے ملا۔ آخر کار اس کی پیٹی ہرمن (Pete Harman) سے 1952ء میں ایک نیشنل ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن کانفرنس کے دوران ملاقات ہوگئی۔ یہی ملاقات KFCکے افتتاح کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔پیٹی ہرمن نے سرمایہ کاری کی
اور کرنل نے پکوان بنانے شروع کیے۔KFCدن دگنی رات چگنی ترقی کرنے لگا۔ ایک سال کے اندر مزید جگہ لینی پڑی اور سالانہ حجم ایک لاکھ 35ہزار ڈالر سے بڑھ کر 4لاکھ 50ہزار ڈالر ہوگیا۔ 1955ء میں کرنل سینڈرز نے اس کاروبار کو ایک قانونی ادارے کی شکل دی۔ ملک بھر میں اس کی فرنچائز بنائیں۔ 1960ء کے ابتداء ہی میں 600فرنچائز امریکا اور کینیڈا میں تھیں۔ جہاں لذیذ اور پرلطف چکن فروخت کی جاتی۔1964ء کو
75سال کی عمر میں کرنل سینڈرز نے اسے امریکی کمپنی کو 2ملین ڈالر میں بیچ دیا ،لیکن پھر بھی کرنل سینڈرز کمپنی کے لیے عوامی ترجمان تھا۔ یہ فرنچائز تین بار مختلف ہاتھوں بکی، لیکن اس کی ترقی میں ذرا برابر فرق نہ آیا۔ پھر مزید تین بار فروخت ہوئی ۔ یہ ایک کہانی ہے جس میں ایک چھوٹی سی جگہ سے کام کا آغاز کرنے والا پوری دنیا پر آپ کو چھایا نظر آتا ہے۔ ہر شہرمیں جگہ جگہ KFCریسٹورنٹ نظر آتے ہیں۔اس
کے بانی کرنل سینڈرزنے ’’ناممکن‘‘ کا لفظ اپنی ڈکشنری سے خارج کر دیاتھا۔Never Everکو اس نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ عظیم چیزیں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں اگر ہم بھی ’’کبھی بھی نہیں‘‘ کے چنگل سے اپنے آپ کو آزاد کرالیں اور اپنے وژن اور مقصد کے ساتھ لگن، استقامت اور اخلاص کے ساتھ وابستہ ہو جائیں۔