سیفس بانسا ایک افریقی ملک کا بادشاہ ہے‘یہ ایسا بادشاہ ہے جسے اپنی سرزمین پر قدم رکھے کئی عشرے گزر چکے ہیں۔نوجوانی کے زمانے ہی سے وہ جرمنی میں مقیم ہے اور وہیں سے اپنی مملکت کے امور چلا رہا ہے۔ سیفس دراصل افریقی ملک گھانا کے خودمختار سرحدی علاقے ہوہوئی کا بادشاہ ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے ہوہوئی گھانا کا حصہ ہے مگر انتظامی طور پر یہ خود مختار علاقہ ہے جہاں بانسا خاندان کی بادشاہت چلی آرہی ہے۔
سیفس کی رعایا میں دولاکھ سے زائد مرد و زن شامل ہیں۔ جرمنی میں مقیم سیفس ٹیلی فون‘ فیکس‘ ای میل اور اسکائپ کے ذریعے اپنی سلطنت کے امور چلاتا ہے۔چھیاسٹھ سالہ سیفس 1970ء میں فنی تعلیم کے حصول کی غرض سے جرمنی آیا تھااور یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ اسے فنی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش تھی چنانچہ اس نے ایک کمپنی میں انٹرن شپ شروع کردی‘ سیفس نے اس دوران زرعی مشینری اور عام گاڑیوں کے مکینک کے طور پر تربیت مکمل کی‘ مشینوں کے علاوہ اسے باکسنگ کا بھی شوق تھا‘ فارغ وقت میں وہ باکسنگ کی مشق کیا کرتا تھا‘ رفتہ رفتہ اس کھیل میں اسے اتنی مہارت ہوگئی کہ 1975ء میں وہ اپنے ضلعے کا چمپئن بن گیا‘جرمنی میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے سیفس نے کہا تھا’’ یہاں مقیم ہونے کی دو وجوہات ہیں‘پہلی بات تو یہ کہ انٹرن شپ کے دوران میں نے جو ہنر سیکھے تھے ان سے فائدہ اٹھانا اور دوسرا جرمن قوم کے مختلف رویوں کا مشاہدہ کرنا۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں رہتے ہوئے میں بادشاہ کی حیثیت سے اپنے لوگوں کے زیادہ کام آسکتا ہوں۔‘‘سیفس کی رسم تاج پوشی 16 اپریل 1992ء کو ہوئی تھی‘ اس کی تاج پوشی کا قصہ بھی دل چسپ ہے‘عام طور پر بادشاہ کی موت یا اقتدار سے دستبرداری کے بعد اس کا بیٹا ہی تخت نشین ہوتا ہے مگر سیفس کو اس کے دادا کی موت کے بعد بادشاہ منتخب کرلیا گیا
حالانکہ اس کے والد اور بڑے بھائی بھی حیات تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیفس کے بھائی اور والد بائیں ہاتھ سے کام کرتے تھے۔ مقامی عقیدے کے مطابق وہ حکمرانی کے اہل نہیں ہوسکتے تھے کیوں کہ ہوہوئی میں بائیں ہاتھ کو ناپاک سمجھا جاتا ہے ۔سیفس اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ جرمنی میں ہی رہتا ہے۔ یہاں اس نے ایک ورک شاپ کھول رکھی ہے جہاں وہ گاڑیوں اور زرعی آلات کی مرمت کرتا ہے۔ اپنی سلطنت سے
ہزاروں میل دور رہنے کے باوجود وہ بادشاہ کی حیثیت سے تمام ذمہ داریاں پوری کررہا ہے۔ زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے اپنی رعایا کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کی خاطر ایک این جی او قائم کی۔جرمنی میں سیفس کی اچھی شہرت کی بدولت اس این جی او کو عطیے میں کثیر فنڈز کے علاوہ زرعی ساز و سامان بھی ملا جو اس نے گھانا منتقل کردیا۔ پھر اس نے واٹر پمپ اور پانی کے پائپ بھیجے جن کی مدد سے لوگوں کو
پینے کے صاف پانی کے حصول میں آسانی ہوگئی۔ ہوہوئی کے واحد اسپتال میں بھی سیفس کی کوششوں سے جدید آلات اور مشینری نصب ہوئی۔اس کے علاوہ اسپتال کو نئی ایمبولینس ‘وہیل چیئرز بھی مل گئیں۔ اس نے اپنی رعایا کے علاج معالجے کے لیے بائیس جرمن ڈاکٹرز کو بھی ہوہوئی جانے پر راضی کیا۔ بعدازاں بادشاہ نے دریائے ڈیائی پر نیا پْل بھی تعمیر کروایا۔ یہ تمام کام اس نے جرمنی میں رہتے ہوئے انجام دئیے۔گاڑیوں اور
مشینری کی مرمت کے علاوہ سیفس کو موسیقی سے بھی دل چسپی ہے‘وہ ماہر گلوکار ہے اور کئی چینلز پر اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرچکا ہے ‘وہ ٹیلی ویژن پروگراموں میں بھی شرکت کرتا ہے اوراس کے شو آسٹریا سمیت کئی ممالک میں نشر کیے جاتے ہیں۔یہ امر انتہائی دلچسپ ہے کہ سیفس کی رعایا اپنے بادشاہ سے دور ہونے کے باوجود خوش ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی تمام ضروریات پوری ہورہی ہیں اس لیے انہیں اپنے
بادشاہ سے کوئی شکایت نہیں۔ رہی رعایا کی بادشاہ کے دیدار کی خواہش تو وہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے پوری ہوجاتی ہے۔ایک طرف یہ گھانا کا بادشاہ ہے اور دوسری طرف ہمارے حکمران۔جو سلطنت میں رہ کر بھی عوام کو خوش نہیں رکھ سکتے۔عوام سال ڈیڑھ سال بعد ہی سڑکوں پر نکل آتی ہے اور انہیں گھر بھیجنے کیلئے تگ ودو کرنے لگتی ہے ۔اس کی بہت ہی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیح
میں رعایا نام کی کوئی شے نہیں‘ ان کی اولیت اقتدار کا لطف اور پیسے کا حصول ہے۔بس کسی نہ کسی طرح اقتدار کے پانچ برس پورے کر لئے جائیں‘ بس کسی نہ کسی طرح ان کی اولاد‘ ان کی اولاد کی اولاد کا مستقبل تابناک ہو جائے‘ ان کی زندگی میں آسائشات کی ریل پیل ہو۔سیفس بانسا کی بادشاہت یہ بھی ثابت کرتی ہے بادشاہ اگر ملک میں ہو یا ملک سے باہر اس سے قوم پر کوئی فرق نہیں پڑتا ‘ہاں یہ فرق ضرور پڑتا ہے کہ اگر حاکم
رعایا کا خیال رکھنے والا ہو‘ ان کے دکھ درد کو سمجھنے والا ہو‘ ان کے مسائل سے آگاہ ہو اور ان کیلئے اپنی خدمات انجام دے رہا ہو تو قوم پھر بھی سلام پیش کرتی ہے۔ یہ فرق بھی بڑا واضح کہ سیفس بانسا بادشاہ ہونے کے باوجود آج بھی ورکشاپ میں کام کرتا ہے‘ اپنے ہاتھوں سے محنت کرتا ہےاور روزی کماتا ہے کیا ہمارا کوئی لیڈر سیفس بانسا کے اس درجے تک پہنچ سکتا ہے ‘ کیا ہمارا کوئی سیاستدان ہاتھ سے مزدوری کر
کے قوم کی خدمت کر سکتا ہے ۔ میرا خیال ہے نہیں لہٰذا یہ وہ فرق ہے جس کی وجہ سے سیفس بانسا جرمنی رہ کر گھانا کا بادشاہ بنا بیٹھا ہے اور ہمارے حکمران عوام رہ کر بیگانہ ہیں۔