انسانی تاریخ میں بربریت اور ظلم کی داستانیں تولاتعداد ہیں جن کی جتنی زیادہ مذمت کی جائے کم ہے ، کسی بے گناہ انسان کا قتل عام کرنا حیوانیت تو ہوسکتا ہے انسانیت سے اس کادور دور تک واسطہ نہیں ۔ 6اگست 1945ءدوسری جنگ عظیم کے دوران وہ بدقسمت دن ثابت ہوا جب جدید تہذیب و تمدن کے نام نہاد علمبردار امریکہ نے B29نامی جنگی طیارے کو استعمال کرتے ہوئے ’لٹل بوائے ‘ نامی پہلا ایٹم بم گرا کر جاپانیوں پر
قیامت برپا کردی تھی ، جاپان کے شہر ہیرو شیما پر ہونے والے اس ایٹمی حملے نے ایک لاکھ چالیس ہزار لوگوں کو لقمہ اجل بنا دیا ، ہزاروں لوگ جسمانی اعضاءسے معذور ہوئے اور اپاہج ہوکر زندہ لاشیں بن کر رہ گئے ، ہیروشیما پر ڈھائے جانے والے ظلم کے ٹھیک3 دن بعد امریکہ نے جاپان کے ایک اور بدقسمت شہر ناگاساکی پر ”فیٹ بوائے “ نامی ایٹم بم گرا کر مزید 70ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ، بدقسمت جاپانیوں پربرپا کیے جانے والے اس ظلم نے انسانیت کو شرمندہ کردیا تھا ، ایک طویل عرصے تک ہیروشیما اور ناگا ساکی کے طویل مضافات میںتابکاری کے اثرات انسانی بیماریوں کا باعث بنتے رہے ، کئی لاکھ لوگ ہاتھ ، پاؤں ، آنکھوں اور دوسرے جسمانی اعضاءسے معذور ہوکرزندہ لاشیں بن کر رہ گئے ، انہی زندہ لوگوں میں سے ایک86سالہ سمٹرو تانی گوچی بھی ہیں ، جاپان پر ہونے والے ایٹمی حملوں کے وقت ان کی عمر محض 16سالہ تھی ، ان کا کہنا ہے کہ ایٹم بم گرنے کی جگہ سے وہ 1میل کے فاصلے پر اپنی سائیکل پر سوار کہیں جار رہے تھے دھماکہ ہوا تو وہ اپنی سائیکل سے اڑ کر بہت دور جاگرے اور ایٹمی بارود کی وجہ سے شدید زخمی ہوئے ، ان کے پورے جسم سے گوشت کے ٹکڑے کٹ کر کئی جگہوں پر زخم ہوگئے ، ان کا کہنا ہے کہ وہ منظر بہت ہولنا ک تھا ایسے لگتا تھا جیسے قیامت واقع ہوگئی ہو ، میں و ہ بھیانک ترین وقت کبھی
نہیں بھلا سکتا جب اس قدر شدید زخمی ہوکر کربناک حالت میں 3دن تک بغیر مدد کے بھٹکنا پڑا تھا ، اس کے بعد مجھے ریسکیو کرکے ہسپتال لے جایا گیا ، تانی گوچی کا کہنا ہے کہ جب مجھے بیڈ پر لٹایا گیا تو نرسیں حیران تھیں کی میری سانسیں ابھی تک چل رہی تھیں ، میری حالت اس طرح تھی کہ پیٹ ، کندھے ، بازو اور ٹانگوں سے گوشت پھٹ گیا تھا ، جسم کے پچھلے حصے سے شدید زخمی ہونے کی بنا پر میں تقریباً 21ماہ تک
اپنے پیٹ کے بل لیٹا رہا تھا، ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کو 70سال گذر چکے ہیں لیکن تانی گوچی ابھی تک اس حملے کی کربناکی سے باہر نہیں نکل پائے ، ان کی کمر ، پیٹ ، بازو اور جسم کے دوسرے حصے پر زخموں گہرے نشانات ہیں جو دیکھنے والوں کیلئے حملوں کی وحشت اور بربریت کا ثبوت ہیں ،ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے خوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والے تانی گوچی نے ایٹمی حملوں سے دنیا کو بچانے
کیلئے زندہ بچ جانے والے مزید لوگوں پر مشتمل ایک گروپ بھی بنایا جس کے زریعے انہوں نے دنیا کو باور کروانے کی کوشش کی کہ ایٹمی اسلحہ انسانوں کا قاتل ہے ، اس سے دنیا کو پاک کرنا بہت ضروری ہے تاکہ اربوں انسانوں کی زندگیوں کو تحفظ حاصل ہوسکے ،اس سال 6اگست کو جاپان میںایٹمی حملے کے نتیجے میں مرنے والوں کی یاد کیلئے کی جانے والی ایک تقریب میں تانی گوچی نے دنیا بھر کو پہلی بار یہ زخم کے نشانات دکھائے اور انہیں پیغام دیا کہ وہ انسداد ایٹمی اسلحہ کے سلسلے میں انفرادی اور اجتماعی طور اپنی کوشش کریں ۔