اس نے اپنے باپ کو قتل کر کے قبیلے کی سرداری حاصل کی تھی اور بیٹھتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ جس کسی نے میرے خلاف بغاوت کی اس کو موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گالیکن اس کے ا س اعلان کے باوجود بھی باغی پیدا ہوگیا تھا اور وہ بھی کوئی اور نہیں اس کا اپنااکلوتا اور سگا بیٹا تھاجب اس کو گرفتار کرکے اس کے سامنے پیش کیا گیا تواس نے اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے کہا۔
شاید تم سوچ رہے ہو گے کہ تمہاری وجہ سے میں اپنے اعلان سے پھر جاؤں گا؟اگر ایساہے تو تم غلط سوچ رہے ہو،سردار اپنی زبان سے کبھی پھرا نہیں کرتے اس لئے تمہیں بھی وہی سزا ملے گی جو کہ کسی اور باغی کو ملنا تھی۔یعنی موت کی سزا،لیکن اس سزا سے پہلے دستور کے مطابق تم بھی اپنی آخری خواہش بیان کرسکتے ہو،کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘میں اپنی بات جلاد کے کان میں کہنا چاہتا ہوں اور میری آخری خواہش یہ ہے کہ جلاد میری بات میرے مارے جانے کے بعد آپ لوگوں کو بتائے۔ ٹھیک ہے تمہاری آخری خواہش کا احترام کرتے ہوئے جلاد تمہاری بات تمہارے مرنے کے بعد ہمیں بتائے گا۔یہ کہہ کر سردار نے جلاد کو اشارہ کیا تو وہ سردار کے بیٹےکے پاس چلا گیا اوراس نے جونہی اس کے کان میں اپنی بات کرنا شروع کی تو جلاد کا رنگ فق سا ہو تا چلا گیا۔اپنی بات ختم کر کے نوجوان نے بے خوفی سے اپنے سردارباپ کی طرف دیکھ کر مسکرانا شروع کر دیا۔ اقتدار اور طاقت کے رسیا سردار نے جلاد کو اشارہ کیا اور اس نے پلک جھپکنے میں تلوار کے ایک ہی وار سے اس کی گردن تن سے جدا کردیاور پھر سردار نے جلاد سے پوچھا۔ ہاں۔۔۔اب بتاؤ اس نے کیا کہا تھا تمہارے کان میں ؟
جلاد نے سردار کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا اور کہا سردار!آپ کے بیٹے نے کہا تھا کہ ،میرا خاندان اس قوم پر برسوں سے ظلم وستم کے پہاڑ توڑتا آرہا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ مستقبل میں بھی یہ قبیح سلسلہ جاری رہے۔اسی لئے میں نے جان بوجھ کر اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی تھی تاکہ وہ مجھے موت کی سزا دے دے اور میں جو کہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں میرے مرنے کے بعد اس خاندان کی نسل ہی ختم ہو جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری