حضرت عمرؒ کے ولید کو نصیحت کرنے کے بعد ایک دن عین دوپہر کے وقت ولید نے خلافِ معمول حضرت عمرؒ کو بلوا لیا۔ جب وہ ولید کے دربار میں پہنچے تو دیکھا کہ خلیفہ کی پیشانی پر بل پڑے ہوئے ہیں۔ ولید نے اشارہ کرکے انہیں اپنے قریب بٹھایا۔ حضرت عمرؒ نے دیکھا کہ ایک بے رحم جلاد خالد بن ریان برہنہ تلوار لے کر ولید کے پاس کھڑا ہے۔
پھر ولید نے اس خارجی سے پوچھا جس کو حجاج نے ولید کے دربار میں بھیجا تھا کہ فلاں فلاں خلیفہ کے بارے میں تیری کیا رائے ہے؟ خارجی نے ان خلفاء کی مذمت کرنا شروع کر دی پھر ولید نے اپنے بارے میں پوچھا کہ تمہاری میرے بارے میں کیا رائے ہے؟ اس خارجی نے صاف جواب دیا تو ایک ظالم اور ستم گر شخص ہے۔ اللہ تجھ پر لعنت کرے۔ ولید نے اسی وقت جلاد خالد بن ریان کو حکم دیا کہ اس کا سر اس کے جسم سے جدا کر دیا جائے۔ جلاد نے اسی وقت حکم کی تعمیل کی۔اب ولید نے حضرت عمرؒ سے پوچھا: جو لوگ خلفاء کو گالیاں دیتے ہیں ان کو قتل کرنا چاہیے یا نہیں؟ آپؒ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ پھر ولید کے دو تین دفعہ پوچھنے پر بھی آپ خاموش رہے۔ اور کوئی جواب نہ دیا پھر ولید کے دو تین دفعہ پوچھنے پر بھی آپ خاموش رہے۔ جب ولید نے باربار پوچھا تو حضرت عمرؒ نے مہر خاموشی توڑتے ہوئے جواب دیا کہ سزا دی جائے۔ اس جواب سے ولید کو سخت غصہ آیا۔ وہ حضرت عمرؒ کے منہ سے قتل کا فتویٰ کہلوانا چاہتا تھا کیونکہ آخر حضرت عمرؒ ایک محدث اور فقیہ بھی تھے۔اس غصہ کی حالت میں ولید گھر چلا گیا اور جلاد نے حضرت عمرؒ کو واپس جانے کا کہا۔ حضرت عمرؒ فرماتے ہیں کہ میں دربار خلافت سے واپس آ گیا لیکن نہایت ڈرا ہوا تھا کہ شاید خلیفہ کی نازک مزاجی میرے متعلق بھی کوئی غلط حکم نہ دے دے۔
میں گھر آ کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ولید نے حضرت عمرؒ کو اپنے گھر بلوایا اور پھر اس خارجی کے بارے میں ان کی رائے طلب کی کہ میں نے جو اس کے قتل کا حکم دیا تھا وہ درست تھا یا نہیں؟ اب حضرت عمرؒ نے فرمایا: امیر المومنین! اس کا قتل درست نہ تھا البتہ اسے کوئی سزا دی جا سکتی تھی اور اگر آپ چاہتے تو اس کو معاف بھی کیا جا سکتا تھا ورنہ پھر قید کر دیتے۔ولید کی طبع نازک پہ یہ بات گراں گزری وہ اپنے اس فعل کے جواز پر ان سے جواز کا فتویٰ حاصل کرنا چاہتا تھا جو انہوں نے نہ دیا۔
لہٰذا وہ غصے سے بھڑک اٹھا۔ حضرت عمرؒ نے اس کے غصے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک مخلص و صادق خیر خواہ کے انداز میں اٹھ کر اپنے گھر کی طرف بڑھے۔ ان کے پیچھے پیچھے جلاد خالد بن ریان بھی نکلا جو اپنے آقا ولید کے غصہ کو کئی بار دیکھ چکا تھا اور اس کے سامنے حضرت عمرؒ کا فتویٰ بھی سن چکا تھا۔ اس نے حضرت عمرؒ سے کہا: ’’ابو حفص! اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے امیرالمومنین سے بحث کی جس سے مجھے خطرہ لاحق ہو گیا کہ
کہیں امیر المومنین آپ کے بارے میں بھی وہی حکم نہ دے دیں جو انہوں نے اس خارجی کے بارے میں دیا تھا ’’حضرت عمرؒ کو جلاد کی یہ بات ناگوار گزری لیکن آپ نے مصلحت کے پیش نظر اپنا غصہ ضبط کر لیا اور جلاد سے پوچھا: اگر امیرالمومنین تجھے میرے قتل کا حکم دیتے تو کیا تو اس کی تعمیل کرتا؟ اس نے کڑک کر جواب دیا: واللہ! ضرور تعمیل کرتا۔ حضرت عمرؒ اس کے جواب پر خاموش ہو گئے لیکن جلاد کی اس بات کو انہوں نے نہاد خانہ دل میں محفوظ کر لیا۔