ایک صوفی کا واقعہ ہے کہ وہ ایک لمبے سفر سے آیا اور بلخ شہر میں پہنچا، رمضان کے دن تھے، بہت لوگ اسکے استقبال کے لئے جمع ہوئے کہ اللہ کا ولی آیا ہے، جب اس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ہجوم کی شکل میں استقبال کے لئے آئے ہیں۔ نعرے لگانے کے لئے کھڑے ہیں اور جوش میں ہیں تو اس نے روٹی کا ٹکڑا نکالا اور کھالیا۔
ماہ رمضان کے دن تھے۔ اس فقیر کے اس عمل سے وہ سارے استقبال کے لئے آنے والے اس کو برا بھلا کہتے اور گالیاں دیتے ہوئے واپس چلے گئے اور کہنے لگے یہ کیسا اللہ کا ولی ہے جس نے روزہ ہی نہیں رکھا۔ وہ فقیر لوگوں کے اس طرز عمل سے خوش ہوگیا۔ جب گھر پہنچا کسی مرید نے پوچھا : یہ آپ نے کیوں کیا؟ انہوں نے جواب دیا۔ میں نے اسی لئے تو کیا ہے کہ لوگ مجھے برا بھلا کہیں۔ ۔ ۔ اگر وہ میرے نعرے لگاتے، استقبال کرتے۔ ۔ ۔ ہاتھ چومتے تو میرا حال خراب ہو جاتا۔ ۔ ۔ اور نفس بگڑ جاتا۔ ۔ ۔ نفس کی اماریت پلٹ آتی۔ ۔ ۔ نفس کہتا کہ تو تو اعلیٰ چیز ہوگیا۔ ۔ ۔ تیرا یہ درجہ ہے کہ سارا شہر باہر آگیا ہے۔ ۔ ۔ اس سے میری روحانیت کا ستیا ناس ہو جاتا۔ مرید نے کہا کہ یہ بات تو سمجھ آگئی لیکن ماہ رمضان میں جو روٹی کھائی اس کا کیا جواب دیں گے۔ اس نے کہا کہ میں تو مسافر تھا، مجھ پر تو روزہ فرض ہی نہیں تھا، اللہ نے مسافر کو رخصت دی ہے کہ مرضی ہے رکھ لے یا بعد میں رکھے، میں تو مسافر تھا، قرآن پر عمل کیا۔ پس یہ صوفیاء ہوتے ہیں۔ ایسے گُر ڈھونڈتے ہیں جو شریعت میں جائز ہوتے ہیں لیکن لوگ اس کو ناجائز سمجھتے ہیں اور ان اعمال کے کرنے والے کو برا بھلا کہتے ہیں، ہر کوئی اپنی سمجھ کے متعلق چلتا ہے۔