موسم سرما میں ایک نامور پاکستانی دانشور بھارت گئے، دورے کے اختتام پر ایک غیر سرکاری تنظیم نے دہلی میں ان کے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں پاکستانی دانشور کو ”خراج عقیدت“ پیش کرنے کے لیے چوٹی کے بھارتی دانشور تشریف لائے،
نشست کے آخر میں جب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک ہندو دانشور نے اپنے معزز مہمان سے ایک عجیب سوال پوچھا، پوچھنے والے نے پوچھا۔ ”یہاں بھارت میں تو مسلمان مساجد میں نماز ادا کرتے ہیں وہاں پاکستان میں کہاں پڑھتے ہیں؟“ پاکستانی دانشور نے اس سوال کو مذاق سمجھ کر فلک شگاف قہقہہ لگایا لیکن جب انہیں محفل کی طرف سے کوئی خاص رد عمل موصول نہ ہوا تو انہوں نے کھسیانا سا ہو کر سوالی کی طرف دیکھا، ہندو دانشور کے چہرے پر سنجیدگی کے ڈھیر لگے تھے، پاکستانی دانشور نے بے چینی سے پہلو بدل کر جواب دیا۔ ”ظاہر ہے مسجدوں ہی میں پڑھتے ہیں۔“ یہ جواب سن کر ہندو دانشور کھڑا ہوا، ایک نظر حاضرین پر ڈالی اور پھر مسکرا کر بولا۔ ”لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق تو پاکستانی مسجد وں میں نماز پڑھنے والوں کو گولی مار دی جاتی ہے۔“ ہندو دانشور کا یہ تبصرہ پاکستانی دانشور کو سکڈ میزائل کی طرح لگا، اس کا ماتھا پسینے سے بھیگ گیا، ہاتھوں میں لرزہ طاری ہوگیا اور آنکھوں میں سرخی آ گئی، منتظمین موقع کی نزاکت بھانپ گئے لہٰذا انہوں نے فوراً نشست کے اختتام کا اعلان کردیا یوں پاک بھارت تعلقات مزید بگڑنے سے بچ گئے۔